سوال:
کیا حضرت مریم علیہا السلام انبیاء میں سے تھیں؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ وہ کس نبی کی بیٹی تھیں اور ان کا خاندان اور نسب کیا تھا؟
جواب: تفسیر ابن کثیر میں مذکور ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کے والد کا نام "عمران بن ہاشم" اور آپ کی والدہ کا نام "حنة بنت قاقوذ" تھا، دونوں کا شمار بنی اسرائیل کے نیک وپارسا لوگوں میں ہوتا تھا اور حافظ ابنِ عساکر رحمہ اللّٰہ کے قول کے مطابق "عمران" کا نسب حضرت سلیمان علیہ السلام اور "بی بی حنة" کا نسب حضرت داؤد علیہ السلام سے جاکر ملتا ہے۔(مأخذہ: قصص القرآن جلد ٤/ ٣٠٢، مؤلفہ: حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہ اللّٰہ)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللّٰہ نے جمہور علماء کا قول نقل فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی عورت کو نبی یا رسول نہیں بنایا۔ بعض لوگوں نے حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں نبی ہونے کا قول نقل کیاہے، مگر جمہور علماء کے نزدیک ان کی بزرگی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا درجہ ہونا ثابت ہوتا ہے، نبی یا رسول ہونا ثابت نہیں۔ (مأخذہ تفسیر معارف القرآن: ۵/ ۱۵۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (یوسف، الایة: 109)
"وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُوْحِیْ اِلَیْہِمْ".
حاشیة الترمذی: (5/2)
"وأجمعوا علی عدمہا لہا".
مختصر تفسیر ابن کثیر: (265/2، ط: دار القرآن الکریم)
"یخبر تعالیٰ أنہ إنما أرسل رسلہ من الرجال لا من النساء، وہذا قول جمہور العلماء -إلی- ویبقی الکلام في أن ہذا ہل یکفي في الإنتظام في سلک النبوۃ بمجردہ أم لا؟ الذی علیہ أہل السنۃ والجماعۃ وہو الذي نقلہ الشیخ أبو الحسن الأشعري عنہم: أنہ لیس في النساء نبیۃ.. الخ".
التفسیر المظہری: (یوسف، الایة: 109)
"قال الحسن نظرا إلی ہذہ الآیۃ لم یبعث اللہ نبیا من بدو ولا من الجن ولا من النساء".
تفسیر بیان القرآن: (مسائل السلوک علی بیان القرآن، 40/2، ط: تاج ببلشرز)
قال العبد الضعیف: "استدل الجمہور بہ علی تخصیص الرسالۃ بالرجال".
التفسیر الکبیر: (51/22، ط: بیروت)
"فقد اتفق الأکثرون علی أن أم موسیٰ علیہ السلام ما کانت من الأنبیاء والرسل -إلی- فکیف تصلح للنبوۃ، ویدل علیہ قولہ تعالی: ’’وَمَا اَرْسَلْنَا قَبْلکَ اِلاَّ رِجَالًا نُوْحِیْ اِلَیْہِمْ‘‘ [الأنبیاء: ۷] وہذا صریح في الباب".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی