سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! اگر بیوی کے تمام ڈاکومینٹس میں نام تبدیل کروا لیا جائے اور گھر والوں کے مجبور کرنے پر ان کے سامنے طلاق کی نیت کے بغیر بیوی کے پرانے نام پر تحریراً طلاق دے دے، تو کیا ایسا کرنے سے طلاق واقع ہو جائے گی؟
نوٹ:
واضح رہے کہ بیوی پہلے عیسائی تھی اور اب مسلمان ہے اور طلاق اس کے سابقہ یعنی عیسائی نام پر دی گئی ہے۔
جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا نام یا نسبت بدل کر طلاق دے، اور اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نیت نہ ہو، مثلاََ اس کی بیوی کا نام فاطمہ ہے اور وہ عائشہ کو طلاق دے یا زید کی بیٹی کو طلاق دے، حالانکہ اس کی بیوی زید کی بیٹی نہیں ہے تو اس کی بیوی کو طلاق نہیں ہوگی۔
صورت مسئولہ میں شوہر نے ڈاکومینٹس سے نام تبدیل کرنے کے بعد پرانے نام سے طلاق نامہ تحریر کیا ہے اور بوقت تحریر اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نیت بھی نہیں تھی، تو ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (273/3، ط: دار الکتاب الاسلامی)
وفي موضع آخر منها رجل قال امرأته عمرة بنت صبيح طالق وامرأته عمرة بنت حفص ولا نية له لا تطلق امرأته....ولو قال امرأته الحبشية طالق وامرأته ليست بحبشية لا يقع.... وفي المحيط الأصل أنه متى وجدت النسبة وغير اسمها بغيره لا يقع لأن التعريف لا يحصل بالتسمية متى بدل اسمها لأن بذلك الاسم تكون امرأة أجنبية ولو بدل اسمها وأشار إليها يقع۔
فتاوی محمودیة: (272/12)
فتاوی دار العلوم دیوبند: (59/5، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی