عنوان: کرونا وائرس کی وجہ سے نماز میں مقتدیوں کے درمیان فاصلہ رکھنا (4089-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! عرض ہے کہ کورونا وبا کے پیش نظر کئی مساجد میں نمازیوں کے لیے ہر صف میں تین تین فٹ کے فاصلے پر نشان لگا کر، ان نشانات کے مطابق تین تین فٹ کا فاصلہ رکھتے ہوئے صف بندی کی جاتی ہے۔
مصادر شریعت یا اسلامی تاریخ میں کسی بھی وبا کے دوران امت کے تعامل کے حوالے سے رہنمائی مطلوب ہے کہ اس طرح کی اجازت کی بنیاد یقین یا کم ازکم گمان غالب پر ہے کہ صف میں ہر دوسرا نمازی کورونا زدہ ہے، جب کہ کورونا زدہ ہونے کا نہ یقین ہے اور نہ غالب گمان، تو کیا اس اجازت کی بنیاد محض بد گمانی پر قائم ہے؟
اگر سدذرائع کا حوالہ دیا جائے تو یہ تب درست ہوگا کہ جب صحت مند آدمی کے ساتھ اختلاط یا قرب سے یقینی طور پر یہ بیماری پھیلتی ہو، جب کہ دو صحت مند افراد کے انتہائی اختلاط کی سب سے بڑی مثال میاں بیوی کا اختلاط ہے، پھر تو صحت مند زوجین کا یہ ملنا بھی علت اختلاط میں اشتراک کی وجہ سے کورونا کا سبب ہوا، مذکورہ امور کی بناء پر ایک قسم کا خلجان ہے، گزارش ہے کہ مصادر دین اور وبا کے سلسلے میں اسلاف کے تعامل کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں؟

جواب: دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی سے جاری شدہ درج ذیل فتویٰ میں آپ اپنے سوال کا جواب ملاحظہ فرما سکتے ہیں:
سوال:
ہماری طرف ایک مسجد میں موجودہ حالات کی وجہ سے اس طرح جماعت سے نماز ہوئی کہ ایک مقتدی دوسرے مقتدی سے ایک آ دمی کے برابر فاصلے سے کھڑا تھا تو یہ طریقہ نماز کا درست ہے ؟
جواب:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوں کے درمیان خالی جگہ پر کرکے مل کر کھڑے ہونے کی تاکید فرمائی ہے، ایک حدیث میں صفوں کی درستی کو جس میں خلا پُر کرنا بھی شامل ہے نماز کا حسن قراردیا ہے۔ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوں کے درمیان خالی جگہ نہ چھوڑ نے والوں کے لیے مغفرت کی دعا بھی فرمائی ہے۔ اور بعض روایات میں صفوں کے درمیان خلا چھوڑنے پر ناراضی کا اظہار بھی فرمایا۔ چناں چہ عام حالات میں صفوں کے درمیان خلا رکھنا مکروہِ تحریمی ہے، اور مل کر کھڑا ہونا سنت متوارثہ ہے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے حفظانِ صحت کے اصولوں کی رو سے حکومتی احکامات اور مسلمان دین دار ، تجربہ کا رڈاکٹر وں کے مشوروں کے مطابق اگر مسجد کی حدود کے اندر فاصلہ رکھ کر نماز پڑھ لی جائے تو نماز ادا ہوجائے گی، تاہم فاصلہ رکھ کر کھڑے ہونا سنتِ متواترہ کے خلاف ہے، سرکار کی طرف سے پابندی ہو تو ضرورۃً اس طرح کھڑے ہونے کی گنجائش ہے۔
یہ ملحوظ رہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کوئی مرض بذاتِ خود متعدی نہیں ہوتا، بلکہ سبب کے درجے میں اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو دوسرے انسان کو مرض لگتا ہے ورنہ نہیں لگتا، اسباب کے درجہ میں احتیاط کرنا توکل اور منشاءِ شریعت کے خلاف نہیں ہے، لہٰذا جن مریضوں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوجائے انہیں مساجد میں جماعت میں شریک نہیں ہونا چاہیے، لیکن کسی خاص مرض کے ہر حال میں دوسرے کو منتقل ہونے کا عقیدہ نہیں ہونا چاہیے۔
حضرت بنوری رحمہ اللہ معارف السنن میں لکھتے ہیں :
"وینبغي أن یأمرام بأن یتراصوا ویسدوا الخلل ویقف وسطًا ... الخ. وظاهره الندب أو السنیة لا الوجوب".
( معارف السنن، کتاب الصلاة، باب ماجاء في إقامة الصفوف: ٢/ ٢٩٩)
البحرالرائق لابن نجیم میں ہے:
"وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف، ولا بأس أن يأمرهم الإمام بذلك، وينبغي أن يكملوا ما يلي الإمام من الصفوف، ثم ما يلي ما يليه، وهلمّ جرًّا، وإذا استوى جانبا الإمام فإنه يقوم الجائي عن يمينه، وإن ترجح اليمين فإنه يقوم عن يساره، وإن وجد في الصف فرجةً سدّها وإلا فينتظر حتى يجيء آخر كما قدمناه، وفي فتح القدير وروى أبو داود والإمام أحمد عن ابن عمر أنه صلى الله عليه وسلم قال: «أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدي إخوانكم ولاتذروا فرجات للشيطان، ومن وصل صفًّا وصله الله ومن قطع صفًّا قطعه الله»".
( البحرالرائق کتاب الصلاۃ باب الامامۃ ۱/۳۷۵ دارالکتاب العربی )
حاشیه الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
"ومن سنن الصف التراص فيه والمقاربة بين الصف والصف والاستواء فيه قوله: "استووا" أي في الصف قوله: "تستو" بحدف الياء جواب الأمر وهذا سر علمه الشارع صلى الله عليه وسلم كما علم أن اختلاف الصف يقتضي اختلاف القلوب قوله: "أقيموا الصفوف" أي عدلوهها قوله: "وحاذوا بين المناكب" ورد كأن أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه قوله: "وسدوا الخلل" أي الفرج روى البزار بإسناد حسن عنه صلى الله عليه وسلم: "من سد فرجة في الصف غفر له".
(حاشیه الطحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الصلاۃ باب الامامۃ ٣٠٦ دارالكتب العلميه)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107201231
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
نیز ہمارے زمانے کے مسلمہ فقہاء کرام اور اہل علم نے موجودہ حالات میں ان پابندیوں کے ساتھ نماز ادا کرنے کو اس لیے گوارا فرمایا ہے تاکہ کسی طرح مساجد نمازوں سے آباد رہیں، ورنہ یہاں بھی مقتدر حلقوں کی طرف سے مساجد کی مکمل بندش کا مطالبہ اسی طرح تھا، جس طرح دیگر مسلم ممالک میں بندش کی گئی ہے۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1163 Apr 21, 2020
carona virus ki / ke waja / vaja se namaz me / mein / mey muqtadion / muqtadioo ke / key darmian / darmyan fasla / faasla rakhna, Keeping distance between followers / muqtadi in prayer due to coronavirus

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.