عنوان: ثریا ستارے کے طلوع ہونے سے وبا کا ختم ہونا، روایت کی تحقیق(4102-No)

سوال: حضرت عثمان بن عبد اللہ بن سراقہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پھلوں کی خرید و فروخت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے پھلوں کی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے، جب تک کہ (آفات، وبائی بیماری) ختم نہ ہو جائے، میں نے کہا: یہ کب ممکن ہے؟ فرمایا: یہاںتکہ "ثریا" ستارہ طلوع ہو جائے۔
اس حدیث کے مطابق ثریا ستارہ طلوع ہونے پر وبائی بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں، اور علم فلکیات کے اعتبار سے ثریا ستارہ بارہ مئی کو طلوع ہونے والا ہے، لہذا اللہ تعالٰی سے امید ہے کہ یہ بیماری (کرونا) بھی ختم ہو جائیگی۔
عن عثمان بن عبد الله بن سراقة، قال: سألت ابن عمر عن بيع الثمار؟ فقال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمار حتى تذهب العاهة، قلت: ومتى ذاك؟ قال: حتى تطلع الثريا۔ (مسند احمد: رقم الحدیث، 5105)
کئی اصحاب تفاسیر نے اس کو ومن شر غاسق اذا وقب کے تحت بیان فرمایا ہے۔
حدیث میں ہے کہ حتی تطلع ثریا یعنی فجر کے وقت جب یہ ستارہ طلوع ہوتا ہے، ایک مرفوع روایت میں ہے کہ جب ستارہ صبح نمودار ہوتا ہے تو ہر شہر سے بیماری اٹھا لی جاتی ہے، یہ ستارہ صبح کے وقت طلوع ہوتا ہے اور موسم گرما کے شروع میں اس کا طلوع واقع ہوتا ہے، یہ وہ وقت ہے جب بلد حجاز میں گرمی زوروں پر ہوتی ہے، لہذا امید ہے کہ اللہ اس وبا کو اپنی رحمت کاملہ سے دور فرمائیں گے۔
ایک مولوی صاحب نے تحقیق کرکے کہا ہے کہ یہ پھلوں کے ساتھ خاص ہے، جبکہ دیگر علما کہتے ہیں کہ یہ صرف پھلوں کے ساتھ خاص نہی ہے، بلکہ عام ہے، انہوں نے ابو داود کے حوالہ سے لکھا ہے کہ جب ثریا طلوع ہوگا تو یہ بیماری (کرونا وائرس) ہر ملک سے دور ہوگی۔ براہ کرم اس کی تحقیق فرمادیں۔

جواب: واضح رہے کہ اس بارے میں جتنی بھی روایات کتب حدیث میں موجود ہیں، ان میں سے بعض احادیث مقید ہیں، یعنی اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ  ثریا ستارہ طلوع ہونے سے پھلوں کی بیماری ختم ہوجائے گی اور بعض مطلق ہیں، یعنی اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ کوئی بھی بیماری ہو،ثریا ستارہ کے طلوع ہونے سے ختم ہوجائے گی یا کم ہوجائے گی۔
پہلی قسم کی روایات کا تعلق ایک اور معاملہ سے ہے، وہ" بیع قبل بدو الصلاح " یعنی درختوں پر لگے ہوئے پھل ظاہر ہونے سے پہلے خرید وفروخت کرنے سے منع کرنا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت بیچنے میں درختوں پر لگے ہوئے پھلوں کے آفات سے متاثر اور ضائع ہونے کے امکانات زیادہ ہیں، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس طرح بیچنے کی صورت میں پھل توڑنے کے وقت کسی آفت وبیماری کی وجہ سے پھل ہی نہ رہیں یا بہت کم ہوجائیں، جس سے خریدار کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑے، جس کی وجہ سے آپس میں جھگڑا اور تنازع پیدا ہوجائے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث شریف میں درختوں پر لگے ہوئے پھلوں کے بیچنے کا ایک وقت بیان فرمادیا، اور اس بات کی تائید بخاری شریف کی درج ذیل روایت سے بھی ہوتی ہے۔
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَايَعُونَ الثِّمَارَ ، فَإِذَا جَدَّ النَّاسُ وَحَضَرَ تَقَاضِيهِمْ ، قَالَ الْمُبْتَاعُ : إِنَّهُ أَصَابَ الثَّمَرَ الدُّمَانُ ، أَصَابَهُ مُرَاضٌ ، أَصَابَهُ قُشَامٌ عَاهَاتٌ يَحْتَجُّونَ بِهَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَمَّا كَثُرَتْ عِنْدَهُ الْخُصُومَةُ فِي ذَلِكَ ، فَإِمَّا لَا فَلَا تَتَبَايَعُوا حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُ الثَّمَرِ كَالْمَشُورَةِ يُشِيرُ بِهَا لِكَثْرَةِ خُصُومَتِهِمْ ، وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ : أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ لَمْ يَكُنْ يَبِيعُ ثِمَارَ أَرْضِهِ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا فَيَتَبَيَّنَ الْأَصْفَرُ مِنَ الْأَحْمَرِط(بخاری حدیث نمبر:2193)
ترجمہ:
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ پھلوں کی خرید و فروخت ( درختوں پر پکنے سے پہلے ) کرتے تھے ، پھر جب پھل توڑنے کا وقت آتا اور مالک ( قیمت کا ) تقاضا کرنے آتے تو خریدار یہ عذر کرنے لگتے کہ پہلے ہی اس کا گابھا خراب اور کالا ہو گیا، اس کو بیماری ہوگئی، یہ تو ٹھٹھر گیا، پھل بہت ہی کم آئے، اسی طرح مختلف آفتوں کو بیان کرکے مالکوں سے جھگڑتے ( تاکہ قیمت میں کمی کرالیں ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح کے مقدمات بکثرت آنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اس طرح جھگڑے ختم نہیں ہوسکتے تو تم لوگ بھی میوہ کے پکنے سے پہلے ان کو نہ بیچا کرو، گویا مقدمات کی کثرت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بطور مشورہ فرمایا تھا۔ خارجہ بن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنے باغ کے پھل اس وقت تک نہیں بیچتے، جب تک ثریا نہ طلوع ہو جاتا اور زردی اور سرخی ظاہر نہ ہو جاتی۔
ثریا ستارے کے ذکر کرنے کی وجہ:
ثریا ستارہ کا ذکر اس لیے کیا کہ عربوں کے ہاں مہینے خاص کر شمسی مہینے متعارف نہیں تھے، وہ مہینوں کی تعین ستاروں سے کیا کرتے تھے کہ اگر فلاں ستارہ فلاں جگہ ہوگا تو فلاں کام کرنا ہے، اسی طرح عربوں کی عادت اور ان کے موسم کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا کہ نجم یعنی ثریا ستارہ طلوع ہو تو اس وقت خرید و فروخت کرو، کیونکہ اس وقت پھل خاص کر کھجور پک جاتی ہے اور اس کے ضائع ہونے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔

ثریا ستارہ کب طلوع ہوتا ہے؟
امام طحاوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ثریا کے طلوع کا وقت مصری کلینڈر کے اعتبار سے شنس ہے(امام طحاوی خود بھی مصر کے رہنے والے تھے ) اور شام وغیرہ جہاں سریانی کلینڈر رائج تھا، اس کے اعتبار سے ایار کا مہینہ ہے اور یہ انگریزی کلینڈر کے اعتبار سے مئی کا درمیانی عشرہ بنتا ہے۔
(تفصیل کےلیے دیکھیے،(شرح مشکل الاثار للطحاوی، ج 6 ، ص: 56، ط:مؤسسة الرسالة )
ثریا کے طلوع کے وقت ’’ عاہۃ‘‘ (بیماری اور وبا) کے ختم ہونے سے کیا مراد ہے؟
ثریا کے طلوع کے وقت ’’ عاہۃ‘‘ (بیماری اور وبا) کے ختم ہونے سے حدیث شریف میں مراد وہ بلائیں اوربیماریاں ہیں، جو پھلوں اور کھیتیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔
علامہ امیر عزالدین محمد بن اسماعیل التنویرشرح الجامع الصغیر میں لکھتے ہیں:
والعاهة الآفة التي تلحق الزرع والثمار في فصل الشتاء وصدر فصل الخريف فيحصل الأمن منها عند طلوع الثريا۔
(ج:2 ، ص:133 ط:مكتبة دار السلام
)
ترجمہ:
’’عاہۃ‘‘ وہ بیماری ہے، جوموسم سرما اور موسم خریف کے اوائل میں کھیتیوں اور پھلوں کولگ جاتی ہے، تو اس آفت وبیماری سے ثریا کے طلوع ہونے سے نجات مل جاتی ہے‘‘۔ 
( مزید تفصیل کے لیے دیکھیے شرح النووی، ج:10، ص: 179، ط:دار إحياء التراث العربي، نیل الاوطار للشوکانی ،ج:5 ، ص: 206، ط:دار الحديث، الأنواء في مواسم العرب للعلامہ ابن قتیبہ، ص: 31)
اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئ کہ طلوع ثریا کے وقت جس ’’عاہۃ‘‘ (بیماری )کے ختم ہونے کی بات کہی گئی ہے وہ ہر قسم کی آفات، وبائیں اور امراض نہیں ہیں، بلکہ اس سے پھلوں، خاص کر کھجور(کیونکہ عرب کا اصل پھل کھجور ہی ہے) کو خراب کرنے والی بیماری مراد ہے، کیونکہ ثریا کے طلوع کے وقت تک گرمی بہت سخت ہوچکی ہوتی ہے اور کھجور گرمی سے ہی تیار ہوتی ہے اور گرمی کی تیزی کھجور کے لئے مفید ہے اور ثریا کے طلوع ہونے تک وہ مکمل طور پر تیار ہوجاتی ہے، جس کے بعد عام طور پر اس میں بیماری وغیرہ نہیں لگتی ہے تو گویا کہ ثریا کا طلوع ہونا بھی بیماری کو دور کرنے والا نہیں ہے ،بلکہ وہ ایک زمانہ کی تعیین اور علامت ہے کہ اس وقت تک کھجور مکمل پک چکی ہوتی ہے، لہذا یہ بات ثابت ہوگئی کہ طلوع ثریا سے ختم ہونے والی ’’عاہۃ ‘‘ (آفت وبیماری) سے پھلوں کی بیماری مراد ہے، اس کی تائید درج ذیل روایات سے ہوتی ہے۔
عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمنِ؛ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم، نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ، حَتَّى تَنْجُوَ مِنَ الْعَاهَةِ
لموطأللامام مالك بن أنس، ج:4، ص: 894،ط:مؤسسة زايد بن سلطان)
ترجمہ:
حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ پھل کو وبا سے نجات حاصل ہوجائے۔
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تَنْجُوَ مِنَ الْعَاهَةِ»
(المعجم الکبیر للطبراني ،ج:5، ص:122،ط:مكتبة ابن تيمية
)
ترجمہ:
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ پھل کو وبا سے نجات حاصل ہوجائے۔
وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ نَهَى عَنْ بَيْعِ السُّنْبُلِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَبْيَضَّ، ‏‏‏‏‏‏وَيَأْمَنَ الْعَاهَةَ نَهَى الْبَائِعَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُشْتَرِيَ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ.(سنن ترمذی، حدیث نمبر: 1227)
ترجمہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( گیہوں اور جو وغیرہ کے ) خوشے بیچنے سے منع فرمایا، یہاں تک کہ وہ پختہ ہو جائیں اور آفت سے مامون ہو جائیں، آپ نے بائع اور مشتری دونوں کو منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں انس، عائشہ، ابوہریرہ، ابن عباس، جابر، ابو سعید خدری اور زید بن ثابت رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں:
عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَبِيعُوا ثِمَارَكُمْ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا، وَتَنْجُوَ مِنَ الْعَاهَةِ»
(مسند احمد، ج:40، ص: 470، ط: موسسہ الرسالہ)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ پھل ظاہر ہوجائے اور اس کو وبا سے نجات حاصل ہوجائے۔
عَنْ زَيْدِبْنِ ثَابِتٍ؛ أَنَّهُ كَانَ لاَ يَبِيعُ ثِمَارَهُ، حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا
(الموطأللامام مالك بن أنس، ج:4، ص: 894،ط:مؤسسة زايد بن سلطان)
ترجمہ: زید بن ثابت رضی اللہ عنہما پھل نہیں بیچتے تھے یہاں تک کہ ثریا ستارہ طلوع ہوجائے۔
شارحین حدیث نے بھی ان روایات کی تشریح میں لکھا ہے کہ ثریا سے جو وبا ختم ہوتی ہے، اس سے مراد پھلوں کی وبا ہے(تفصیل کےلیےدیکھیے شرح مشکل الآثار للإمام الطحاوی، ج۶ص۵۳، ط:مؤسسۃ الرسالۃ،فتح الباری للإمام ابن حجر العسقلانی، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحہ، ج۴ص۳۹۵، ط:دار المعرفۃ، بیروت، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری للإمام بدر الدین العینی، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۱۲ص۴، ط:دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
یہی وجہ ہے کہ محدثین کرام نے ان روایات کو "باب بیع الثمر قبل بدو صلاحہ یا باب النھی عن بیع الثمار حتی یبد و صلاحھا" کے تحت رکھا ہے، جس سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ احادیث میں ثریا کے طلوع ہونے سے جو وبا دور ہوتی ہے، وہ پھلوں کی وبا ہے۔
مطلق روایات:
دوسری قسم کی روایات جو عام ہیں، جو درج ذیل ہیں۔
طعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا طَلَعَ النَّجْمُ صَبَاحًا قَطُّ، وَتَقُومُ عَاهَةٌ، إِلَّا رُفِعَتْ عَنْهُمْ أَوْ خَفَّتْ۔
(ج:15، ص: 16،ط: موسسہ الرسالہ
)
ترجمہ:
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب صبح نجم یعنی ثریا ستارہ نکلے تو وبا دور ہوجائے گی۔
(کذا فی المعجم الکبیر للطبراني ج 2 ص 78 ط داراحیاءالتراث،الآثار للإمام أبی یوسف، باب الغزو و الجیش، ج۱ص۲۰۵، رقم:۹۱۷، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ان احادیث میں لفظ " عاھہ" کو عام ذکر کیا گیا ہے، پھلوں کا وغیرہ کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی سیاق وسباق میں اس طرح کی کوئی قید ہے، اگرچہ اس روایت کی بھی درست اور بہتر تشریح وہی ہے، جو اوپر پہلی قسم کی روایات کی تشریح ذکر کی گئی ہے۔ لیکن اس حدیث کے الفاظ عام ہونے کی وجہ سے بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ کوئی بھی بیماری ہو،ثریا ستارہ کے طلوع ہونے سے ختم ہوجائے گی یا کم ہوجائے گی۔ جیسا کہ علامہ سمعانی  نے تفسیر سمعانی (۶؍۳۰۶) میں اور علامہ مناوی ؒ نے التسیر بشرح الجامع الصغیر (۲؍۳۵۲) میں ذکر کیا ہے۔
شاید اسی وجہ سے علامہ ابن حجر عسقلانی نے ’’بذل الماعون فی فضل الطاعون‘ میں جہاں یہ تحریر کیا ہے کہ ماضی میں مسلم ممالک میں پھیلنے والی وبائوں میں سے اکثروبائیں سردی کے موسم کے بعد موسم ربیع کے دوران شروع ہوئیں اورموسم گرما کے اوائل میں ختم ہوگئیں۔ 
خلاصہ کلام:
1۔ثریا کی وجہ سے دور ہونے والی وبا عام نہیں، بلکہ پھلوں کی وبا اور بیماریاں مراد ہیں۔
2۔ثریا کے طلوع ہونے سے وبا کا دور ہونا اکثر اور اغلب ہونے کے اعتبار سے ہے، لازمی نہیں ہے۔
3۔ثریا ستارہ میں بذات خود کوئی تاثیر نہیں کہ وہ وبا دور کرے بلکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صرف وبا دور ہونے کی علامت کے طور پر بیان کیا ہے۔
4۔جن احادیث مبارکہ کو سامنے رکھ کر یہ بات کہی جارہی ہے کہ 12 مئی تک کروناوائرس کے ختم ہوجائےگا، احادیث میں انسانی بیماریوں اور وباؤں کا کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی طلوع ثریا کو ان کے ختم ہونے کا سبب یا وقت بتایا گیا ہے، لہذا ان احادیث کا ایسا مطلب بیان کرنا جو عام شارحین حدیث کے بیان سے مختلف ہو، درحقیقت کلام نبوی کا ایسا مصداق تلاش کرنا ہے جو مقصود نبوی نہیں ہے، اگرچہ نیک فالی لینے میں کوئی حرج نہیں ہے،بعض احادیث کے ظاہری معنی اور علما کے بعض اقوال کے پیش نظر اللہ تعالی کی ذات سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ثریا کے طلوع سے یہ انسانی وبا کم  یا ختم کردے، لیکن  قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا، تو بارہ مئی کو یہ ہوکر رہے گا اور نجات مل کر رہے گی۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 622 Apr 22, 2020
sorrayya / soraiya / sorayya sitare / sitarey / star key / ke tuloo / toloo / rise honey / hone se / sey / say waba / vaba / vabaa / wabaa ke / key khatam / khatm hone / honey ki tehqeeq / tahqeeq / tehqiq / tahqiq, Research on hadith "The end of the plague with the rising of the sorayya / Sun star

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.