سوال:
مفتی صاحب! ہماری والدہ کا 11 رمضان المبارک کو انتقال ہو گیا ہے، ان کے ذمہ پانچ سال کی نماز اور تین سال کے روزے باقی ہیں، ان کا فدیہ کتنا دینا ہوگا؟
جواب: اگر آپ کی والدہ مرحومہ کے ذمہ پانچ سال کی قضا نمازیں اور تین سال کے روزے ہیں اور انہوں نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہے تو اس صورت میں ان کے کل مال کے ایک تہائی (1/3) حصہ سے فدیہ کی رقم نکالی جائے گی، اگر تمام قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ ایک تہائی ترکے میں سے ادا ہوجائے تو بہتر، اور اگر مکمل ادا نہ ہو تو بقیہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ورثاء کے ذمے لازم نہیں ہوگا، تاہم اگر وہ بطورِ تبرع مرحومہ کی بقیہ فوت شدہ نماز و روزوں کی طرف سے فدیہ دینا چاہیں، تو یہ ان کی طرف سے احسان ہوگا۔
اور اگر آپ کی والدہ مرحومہ نے فدیہ کی وصیت نہیں کی تھی، تو شرعاً ورثاء پر ان کی نماز اور روزوں کا فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر ورثاء از خود باہمی رضامندی سے یا آپ اپنی جانب سے ان کی نماز اور روزوں کا فدیہ ادا کر دیں، تو امید ہے کہ ان شاءالله اللہ تعالیٰ نماز اور روزوں کا فدیہ قبول فرمالیں گے۔
ایک روزے اور ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں، تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا اس کا آٹا یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (72/2)
"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر)".
(قوله: وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها، وإلا فلا يلزمه وإن قلت، بأن كانت دون ست صلوات، لقوله عليه الصلاة والسلام: «فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه». وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة، وتمامه في الإمداد. مطلب في إسقاط الصلاة عن الميت.
(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك؛ لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك، إمداد.
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعاً؛ لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة؛ لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطاً؛ لاحتمال كون النص فيه معلولاً بالعجز، فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولاً تكون الفدية براً مبتدأً يصلح ماحياً للسيئات، فكان فيها شبهة، كما إذا لم يوص بفدية الصوم، فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی