سوال:
کیا کسی شخص کو خواب میں حضور ﷺ کی زیارت ہوسکتی ہے اور اگر کسی کو زیارت ہوجائے تو کیا یہ اس کے نیک ہونے کی دلیل ہے؟ نیز یہ فرمادیں کہ اگر نبی کریم ﷺ کی خواب میں زیارت ہو جائے تو لوگوں کو بتانا چاہیے یا نہيں، کیونکہ سنا ہے کہ لوگوں کو بتانے سے دوبارہ زیارت نصیب نہیں ہوتی، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: خواب میں جناب رسول اللہ ﷺکی زیارت برحق ہے، صحیح حدیث میں نبی کریمﷺ کاارشاد ہے:جس نے خواب میں مجھے دیکھا، اس نے سچ مچ مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل میں نہیں آسکتا۔(مشکوۃ)
البتہ یہاں چند امور قابل توجہ ہیں:
۱) بعض علماء اور محدثین فرماتے ہیں کہ اگر جناب رسول اللہ ﷺ کی زیارت آپ ﷺ کی اصل شکل و صورت میں ہو، تب تو آپ ﷺ ہی کی زیارت ہے اور اگر کسی اور حلیہ و صورت میں ہو تو یہ آپ ﷺ کی زیارت نہیں ہے، لیکن اکثر محققین اس کے قائل ہیں کہ آپ ﷺ کی زیارت جس ہیئت میں بھی ہو، وہ آپ ﷺ ہی کی زیارت ہے اور اگر آپ ﷺ کو اچھی شکل و صورت میں دیکھے تو یہ دیکھنے والے کی حالت کے اچھا ہونے کی علامت ہے اور اگر خستہ حالت میں دیکھے تو یہ دیکھنے والے کے دل و دماغ اور دینی حالت کے پراگندہ ہونے کی علامت ہے، گویا آپ ﷺ کی زیارت ایک آئینہ ہے، جس میں ہر دیکھنے والے کو اپنی حالت کا عکس نظر آجاتا ہے۔
۲) خواب میں آپ ﷺ کی زیارت تو برحق ہے، لیکن اس خواب سے کسی ایسےحکم شرعی کو ثابت کرنا جس کی آپ ﷺ نے اپنی دنیاوی زندگی میں تلقین نہ کی ہوصحیح نہیں ہے، اس لیے کہ خواب میں آدمی کے حواس معطل ہوتے ہیں اور شریعت آپ ﷺکے دنیا سے تشریف لے جانے سے پہلے مکمل ہوچکی تھی، لہذا اب اس میں کمی بیشی یا ترمیم و تنسیخ کی گنجائش نہیں ہے، چنانچہ علماء فرماتے ہیں کہ اگرکسی نے خواب میں آپ ﷺ کو کوئی ارشاد فرماتے ہوئے سنا تو اس کو شریعت کے ترازو میں تولا جائے گا، اگر وہ شریعت کے موافق ہو تو اس کے مقتضیٰ پر عمل کیا جاسکتا ہے اور اگر شریعت کے مخالف ہو تو اس کا ترک کرنا واجب ہے۔
۳)خواب میں آپ ﷺ کی زیارت ہونا بڑی سعادت اور خوش بختی کی بات ہے، لیکن خواب میں آپ ﷺ کی زیارت ہونا، یہ کسی کے اللہ کے ہاں مقرّب ہونے اور اس کے ولی ہونے پر دلیل نہیں، بلکہ اللہ کے ہاں قرب کا معیار زندگی میں حضور اکرم ﷺ کی اتباع ہے، چاہے اسے کبھی زیارت نصیب ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔
۴) آپ ﷺ کی زیارت کا جھوٹا دعویٰ کرنا بدترین جھوٹ اور آپ ﷺ پر افتراء ہے۔اگر کوئی ایسا کرے تو یہ اس شخص کے شقی اور بد بخت ہونے اور آخرت میں اس کی رسوائی کے لیے کافی ہے، البتہ اگر کسی شخص کو واقعی خواب میں آپ ﷺ کی زیارت نصیب ہوجائے، تب بھی بلا ضرورت اس کا اظہار اورواویلا کرنا مناسب نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح النووی علی مسلم: (25/15، ط: دار احیاء التراث العربی)
رِوَايَةٍ مَنْ رَآنِي فَقَدْ رَأَى الْحَقَّ وَفِي رِوَايَةٍ من رآني في المنام فسيراني في اليقظة أَوْ لَكَأَنَّمَا رَآنِي فِي الْيَقِظَةِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي مَعْنَى قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فقد رآني فقال بن الْبَاقِلَّانِيِّ مَعْنَاهُ أَنَّ رُؤْيَاهُ صَحِيحَةٌ لَيْسَتْ بِأَضْغَاثٍ وَلَا مِنْ تَشْبِيهَاتِ الشَّيْطَانِ وَيُؤَيِّدُ قَوْلَهُ رِوَايَةُ فقد رأى الحق أي الروية الصَّحِيحَةَ قَالَ وَقَدْ يَرَاهُ الرَّائِي عَلَى خِلَافِ صفته المعروفة كمن رَآهُ أَبْيَضَ اللِّحْيَةِ وَقَدْ يَرَاهُ شَخْصَانِ فِي زَمَنٍ وَاحِدِ أَحَدُهُمَا فِي الْمَشْرِقِ وَالْآخَرُ فِي الْمَغْرِبِ وَيَرَاهُ كُلٌّ مِنْهُمَا فِي مَكَانِهِ وَحَكَى المازرى هذا عن بن الْبَاقِلَّانِيِّ ثُمَّ قَالَ وَقَالَ آخَرُونَ بَلِ الْحَدِيثُ عَلَى ظَاهِرِهِ وَالْمُرَادُ أَنَّ مَنْ رَآهُ فَقَدْ أَدْرَكَهُ وَلَا مَانِعَ يَمْنَعُ مِنْ ذَلِكَ وَالْعَقْلُ لَا يُحِيلُهُ حَتَّى يَضْطَرَّ إِلَى صَرْفِهِ عَنْ ظَاهِرِهِ ۔۔۔۔۔قَالَ الْقَاضِي وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فقد رآني أَوْ فَقَدْ رَأَى الْحَقَّ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ فِي صُورَتِي الْمُرَادُ بِهِ إِذَا رَآهُ عَلَى صِفَتِهِ الْمَعْرُوفَةِ لَهُ فِي حَيَاتِهِ فَإِنْ رَأَى عَلَى خِلَافِهَا كَانَتْ رُؤْيَا تَأْوِيلٍ لَا رُؤْيَا حَقِيقَةٍ وَهَذَا الَّذِي قَالَهُ الْقَاضِي ضَعِيفٌ بَلِ الصَّحِيحُ أَنَّهُ يَرَاهُ حَقِيقَةً سَوَاءٌ كَانَ عَلَى صِفَتِهِ الْمَعْرُوفَةِ أَوْ غَيْرِهَا لِمَا ذَكَرَهُ
الاعتصام للشاطبي: (332/1، ط: دار عفان سعودیة)
لِأَنَّ الرُّؤْيَا مِنْ غَيْرِ الْأَنْبِيَاءِ لَا يُحْكَمُ بِهَا شَرْعًا عَلَى حَالٍ؛ إِلَّا أَنْ تُعْرَضَ عَلَى مَا فِي أَيْدِينَا مِنَ الْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ، فَإِنْ سَوَّغَتْهَا عُمِلَ بِمُقْتَضَاهَا، وَإِلَّا؛ وَجَبَ تَرْكُهَا وَالْإِعْرَاضُ عَنْهَا، وَإِنَّمَا فَائِدَتُهَا الْبِشَارَةُ أَوِ النِّذَارَةُ خَاصَّةً، وَأَمَّا اسْتِفَادَةُ الْأَحْكَامِ؛ فَلَا.
تعطير الأنام في تعبير المنام لعبد الغني النابلسي: (ص: 314، ط: دار الفکر)
ومنهم القاضي عياض رحمه الله تعالى حيث قال قوله فقد رآني وفقد رأى الحق يحتمل المراد به أن من يراه بصورته المعروفة في حياته كانت رؤياه حقاً ومن رآه بغير صورته كانت رؤياه تأويلاً وتعقبه النووي رحمه الله تعالى فقال هذا ضعيف بل الصحيح أنه رآه حقيقة سواء كان على صفته المعروفة أو غيرها وأجاب عنه بعض الحفاظ بأن كلام القاضي عياض لا ينافي ذلك بل ظاهر كلامه أنه رآه حقيقة في الحالين لكن في الأول لا تحتاج تلك الرؤيا إلى تعبير وفي الثانية تحتاج إليه ومنهم الباقلاني وغيره فإنهم ألزموا الأولين بأن من رآه بغير صفته تكون رؤياه أضغاثاً وهو باطل إذ من المعلوم أنه يرى نوماً على حالته اللائقة به مخالفه لحالته في الدنيا ولو تمكن الشيطان من التمثيل بشيء مما كان عليه أو ينسب إليه لعارض عموم قوله فإن الشيطان لا يتمثل بي فالأولى تنزيه رؤياه ورؤيا شيء مما ينسب إليه عن ذلك فإنه أبلغ في الحرمة وأليق بالعصمة كما عصم من الشيطان في اليقظة فالصحيح أن رؤيته في كل حال ليست باطلة ولا أضغاثاً بل هي حق في نفسها وإن رؤي بغير صفته إذ تصور تلك الصورة من قبل الله تعالى فعلم أن الصحيح بل الصواب كما قاله بعضهم أن رؤياه حق على أي حالة فرضت ثم إن كانت بصورته الحقيقية في وقت سواء كان في شبابه أو رجوليته أو كهولته أو آخر عمره لم تحتج إلى تأويل وإلا احتيجت لتعبير يتعلق بالرائي ومن ثم قال بعض علماء التعبير من رآه شيخاً فهو في غاية سلم ومن رآه شاباً فهو في غاية حرب ومن رآه مبتسماً فهو متمسك بسنته وقال بعضهم من رآه على هيئته وحاله كان دليلاً على صلاح الرائي وكمال جاهه وظفره بمن عاداه ومن رآه متغير الحال عابساً كان دليلاً على سوء حال الرائي.
وقال ابن أبي حمرة رؤياه في صورة حسنة حسن في دين الرائي ومع شين أو نقص في بعض بدنه خلل في دين الرائي لأنه صلى الله عليه وسلم كالمرأة الصقيلة ينطبع فيها ما يقابلها وإن كانت ذات المرآة على أحسن حال وأكمله وهذه الفائدة الكبرى في رؤيته صلى الله عليه وسلم إذ بها يعرف حال الرائي ذكر هذا كله ابن حجر الهيثمي رحمه الله تعالى في شرح شمائل الترمذي
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی