عنوان: "نصف رمضان المبارک میں جمعہ کی رات کو ایک چیخ (یا دھماکہ ) ہوگا، جو سونے والوں کو بیدار کردے گی" روایت کی تحقیق اور حکم(4288-No)

سوال: آج کل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے، جس میں ایک حدیث بیان کی جارہی ہے کہ جمعہ کے دن پندرہ رمضان کو صبح ایک زوردار آواز سنائی دے گی، جو شخص اپنے گھر کے دروازے بند کرکے "یا سبوح" کا ورد کرے گا، وہ نجات پائے گا اور جو نہیں کرے گا،وہ ہلاک ہوگا۔کیا یہ حدیث درست ہے، براہ کرم اس حدیث کی وضاحت فرمادیں۔ جزاک اللہ خیرا

جواب:
اس روایت کو ابن نعیم نے کتاب الفتن میں نقل کیا ہے، روایت درج ذیل ہے
حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْحَارِثِ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا كَانَتْ صَيْحَةٌ فِي رَمَضَانَ فَإِنَّهُ يَكُونُ مَعْمَعَةٌ فِي شَوَّالٍ، وَتَمْيِيزُ الْقَبَائِلِ فِي ذِيِ الْقَعْدَةِ، وَتُسْفَكُ الدِّمَاءُ فِي ذِيِ الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمِ، وَمَا الْمُحَرَّمُ» ، يَقُولُهَا ثَلَاثًا، «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ، يُقْتَلُ النَّاسُ فِيهَا هَرْجًا هَرْجًا» قَالَ: قُلْنَا: وَمَا الصَّيْحَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " هَدَّةٌ فِي النِّصْفِ مِنْ رَمَضَانَ لَيْلَةَ جُمُعَةٍ، فَتَكُونُ هَدَّةٌ تُوقِظُ النَّائِمَ، وَتُقْعِدُ الْقَائِمَ، وَتُخْرِجُ الْعَوَاتِقَ مِنْ خُدُورِهِنَّ، فِي لَيْلَةِ جُمُعَةٍ، فِي سَنَةٍ كَثِيرَةِ الزَّلَازِلِ، فَإِذَا صَلَّيْتُمُ الْفَجْرَ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَادْخُلُوا بُيُوتَكُمْ، وَاغْلِقُوا أَبْوَابَكُمْ، وَسُدُّوا كُوَاكُمْ، وَدِثِّرُوا أَنْفُسَكُمْ، وَسُدُّوا آذَانَكُمْ، فَإِذَا حَسَسْتُمْ بِالصَّيْحَةِ فَخِرُّوا لِلَّهِ سُجَّدًا، وَقُولُوا: سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، رَبُّنَا الْقُدُّوسُ، فَإِنَّ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ نَجَا، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ هَلَكَ "
(كتاب الفتن لنعيم بن حماد بن ج1 ص228 ط مكتبة التوحيد - القاهرة )
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر رمضان میں چیخ سنائی دے گی تو شوال میں شور شرابہ ہوگا اور ذی قعدہ میں قبائل کی بغاوت ہوگی اور ذی الحجہ میں خون بہے گا اور محرم کا مہینہ تو کیا ہی مہینہ ہوگا۔ ہم نے پوچھا؛ اے اللہ کے رسولﷺ!یہ چیخ کیسی ہوگی ؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا :نصف رمضان المبارک میں جمعہ کی رات کو ایک چیخ (یا دھماکہ ) ہوگا، جو سونے والوں کو بیدار کردے گی، کھڑے ہونے والوں کو بٹھادے گی، شریف زادیاں اپنی خلوت گاہوں سے نکل آئیں گی۔ اس سال زلزلے کثرت سے آئیں گے، جب تم جمعہ کے دن فجر کی نماز پڑھ لو تو اپنے گھروں میں داخل ہوکر دروازے اور کھڑکیاں بند کرلینا، اپنی چادریں اوڑھ لینا، اپنے کان بند کرلینا، اور جب تمھیں چیخ کا احساس ہو تو اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا اور یہ پڑھنا ”سبحان القدوس “ یعنی پاک ہے وہ ذات جو تمام نقائص سے پاک ہے،”ربنا القدوس“یعنی ہمارا رب، جو نقائص سے پاک ہے۔ جو ایسا کرے گا، وہ نجات پائے گا اور جو ایسا نہیں کرے گا، وہ ہلاک ہوجائے گا۔
تخریج حدیث :
مذکورہ بالا روایت الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ تین طرق سے درج ذیل کتابوں میں ذکر کی گئی ہے۔
المستدرك على الصحيحين ،ج:4،ص:563،ط:دارالکتب العلمیہ )
کنزالعمال ج:14 ص:570
مسند للشاشی: ج: 2 ص: 262،ط:مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة )
المعجم الأوسط للطبراني،ج: 1،ص:163، ط:دار الحرمين - القاهرة
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد للهيثمي ج:7،ص310،ط: مكتبة القدسي
السنن الواردۃ فی الفتن للدانی، ج: 5، ص: 972، ط:دار العاصمة
سند کے اعتبار سےپہلی سند کی تحقیق:
اس روایت کی سند میں دو راوی ہیں:
1۔مسلمہ بن علی
2۔نعيم بن حماد

الف ۔حافظ ابو عبداللہ حاکم مستدرک للحاکم میں فرماتے ہیں:
"مسلمة ممن لا تقوم الحجة به". مسلمہ قابل حجت نہیں ہے۔
2۔امام نسائی اور دارقطنی فرماتے ہیں: یہ متروک روای ہے۔
قال الذهبي: ومسلمةهذا هو ابن علي
الخُشَني -بضم الخاء، وفتح الشين المعجمة، ثم نون-، أبو سعيد الدمشقي، البلاطي، وهو متروك -كما قال الذهبي ... ، وكما في التقريب (2/ 249 رقم 1125) -، تفصیل کے لیے دیکھیے الكامل لابن عدي (6/ 2314)، والتهذيب (10/ 146 - 147 رقم 278).
ب۔نعيم بن حماد کے بارے محدثین کرام فرماتے ہیں:
صدوق يخطيء كثيراً.
سند کے اعتبار سےدوسری سند کی تحقیق:
اس طرق میں تین علل ہیں:
1۔ عبدالواحد اور ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے۔
2۔ عبد الواحد بن قيس حافظہ کے اعتبار سے متكلم فیہ ہیں۔
3 - عنبسة بن أبي صغيرة امام اوزاعی سے نقل کرنے میں متفرد ہیں۔
قال صالح بن محمد البغدادي: "روى عن أبي هريرة، ولم يسمع منه
. وقال ابن حبان: "لا يعتبر بمقاطيعه، ولا بمراسيله، ولا برواية الضعفاء عنه. وهو الذي يروي عن أبي هريرة، ولم يره"، قال الذھبی : "لم يلق أبا هريرة، وإنما روايته عنه مرسلة".
(تفصیل کے لیے دیکھیے التهذيب (6/ 439 - 440).
سند کے اعتبار سےتیسری سند کی تحقیق:
اس سند کا دارمدار شھر بن حوشب روای پر ہے۔
شھر بن حوشب کے بارے میں علامہ ابن حجر نے لکھا ہے:
شهر ابن حوشب الأشعري الشامي مولى أسماء بنت يزيد ابن السكن صدوق كثير الإرسال والأوهام۔
(تقريب التهذيب لابن حجر العسقلاني، ص:269،ط: دار الرشيد)
"صدوق تو ہے، مگر کثیر الارسال والادہام ہے۔"
ابن عون رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: أن شَهْر بن حَوْشَب قد تركوه۔
(الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدی،ج5 ص 59،ط: دارالکتب العلمیہ بیروت )  
"محدثین نے شہر کو ترک کیا ہے۔"
امام نسائی فرماتے ہیں: "شہر بن حوشب قوی نہیں ہے۔"

ابن ابی حثیمہ رحمۃ اللہ علیہ اور معاویہ بن صالح رحمۃ اللہ علیہ نے ابن معین سے روایت کی ہے کہ: وہ ثقہ ہے۔ امام احمد اس کے حسن الحدیث ہونے کے قائل ہیں۔
عَنْ أَحْمَدَ بنِ حَنْبَلٍ: شَهْرٌ ثِقَةٌ، مَا أَحْسَنَ حَدِيْثَهُ ۔۔۔۔۔وَرَوَى: مُعَاوِيَةُ بنُ صَالِحٍ، وَأَحْمَدُ بنُ زُهَيْرٍ، عَنْ يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ: ثِقَةٌ.
(سير أعلام النبلاء للذهبي، ج:4، ص: 374،ط الرسالہ )
خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ بعض ائمہ نے شھر بن حوشب کی توثیق کی ہے، لیکن ائمہ و محدثین کی اکثریت نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
اس روایت کے متعلق محدثین کرام کے تبصرے:
علامہ عقیلیؒ نے لکھاہے:
لَيْسَ لِهَذَا الْحَدِيثِ أَصْلٌ مِنْ حَدِيثِ ثِقَةٍ، وَلَا مِنْ وَجْهٍ يَثْبُتُ۔
(الضعفاء الكبير للعقيلي،ج:3،ص:52،ط:دارالکتب العلمیہ )
اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔
علامہ ذہبیؒ نے بھی اسے موضوع (من گھڑت) کہا ہے۔
قلت: ذا موضوع.قال الحاكم: غريب المتن، (ومسلمة)  لا تقوم به حجة.قلت: بل هو ساقط متروك۔
(مختصر تلخیص الذھبی، ج:7، ص:3418،دَارُ العَاصِمَة)
امام حاکم اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وَهُوَ حَدِيثٌ غَرِيبُ الْمَتْنِ۔
(المستدرك على الصحيحين ،ج:4،ص:563،ط:دارالکتب العلمیہ)
یہ حدیث غریب المتن ہے۔
علامہ ابن جوزیؒ اس روایت کے تینوں طرق ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
هَذَا حَدِيث مَوْضُوع عَلَى رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
(الموضوعات لابن جوزی ج3 ص 190ط محمد عبد المحسن صاحب المكتبة السلفية بالمدينة المنورة)
یہ حدیث من گھڑت ہے۔
علامہ ابن القیمؒ فرماتے ہیں:
وَمِنْهَا أَحَادِيثُ التَّوَارِيخِ الْمُسْتَقْبَلَةِ وَقَدْ تَقَدَّمَتِ الإِشَارَةُ إِلَيْهَا. وَهِيَ كُلُّ حَدِيثٍ فِيهِ إِذَا كَانَتْ سَنَةُ كَذَا وَكَذَا حَلَّ كَذَا وَكَذَا. كَحَدِيثِ "يَكُونُ فِي رَمَضَانَ هَدَّةٌ تُوقِظُ النَّائِمَ وَتُقْعِدُ الْقَائِمَ وَتُخْرِجُ الْعَوَاتِقَ مِنْ خُدُورِهَا۔۔۔الخ
(المنار المنيف في الصحيح والضعيف لابن القیم،ص:110،ط:مكتبة المطبوعات الإسلامية)
مستقبل کی تاریخ سے متعلق اس طرح کی احادیث (جن میں دن اور تاریخ کا تعین کیا گیا ہو) صحیح نہیں ہیں، جیسے رمضان میں زوردار آواز والی حدیث ۔۔۔۔
علامہ نور الدین هيثمي فرماتے ہیں:
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَفِيهِ شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ وَفِيهِ ضَعْفٌ، وَالْبَخْتَرِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ لَمْ أَعْرِفْهُ
( مجمع الزوائد ومنبع الفوائد للهيثمي ج7،ص310،ط: مكتبة القدسي)
اس روایت کو طبرانی نے معجم الاوسط میں نقل کیا ہے اور اس کی سند میں شھر بن حوشب راوی ضعیف ہے۔
علامہ سیوطی نے "اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة"
( ج2،ص322، ط: دار الكتب العلمية) میں اس روایت کو موضوع احادیث کی فہرست میں تینوں طرق سے نقل کیا ہے۔
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس روایت کی کوئی بنیاد نہیں ہے، بلکہ یہ باطل اور جھوٹ ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ اس دن اور تاریخ کا اتفاق اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ہوچکا ہے، لیکن اس روایت میں زوردار آواز کا ذکر ہے ، ایسی کوئی بات پیش نہیں آئی ہے ، اس لیے اس روایت کی ترویج جائز نہیں ہے،بلکہ ضروری ہے کہ اس کے بطلان پر تنبیہ کی جائے اور ایک مسلمان کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ وہ ہر وقت اللہ تعالی سے ڈرے اور اللہ تعالی کی منع کردہ چیزوں سے موت تک بچتا رہے، جیسےکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو یہاں تک کہ تمہیں یقین یعنی موت آجائے۔اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو، جیسا اس سے ڈرنا چاہیے اور نہ مرو، مگر ایسے حال میں کہ تم مسلمان ہو۔
بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ سے فرمایا: تم جہاں بھی ہو، اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور گناہ کے بعد فوراً نیکی کرو، وہ نیکی اس گناہ کو مٹاڈالے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤکرو۔

رمضان اور غیر رمضان (ہر وقت) تقوی پر لزوم و مدوامت اور حق پر استقامت اور اللہ تعالی کی تمام منھیات سے بچنا بہت سی آیات اور احادیث سے ثابت ہے۔
(مجموع فتاوی بن باز، ج: 26، ص: 339)
خلاصہ کلام:
اس روایت کی سند میں سخت ضعف ہے اور بعض حضرات نے تو اس روایت کو موضوع(من گھڑت ) قرار دیا ہے، لہذا اس روایت کو بیان کرنا اور پھیلانا درست نہیں ہے۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2922 May 04, 2020
pandharveen / fifteen / 15 ramzaan / ramzan juma ke / key din / day zordar / zordaat aawaz / sound sunai / sunaee dene / deney se / say mutaaliq / motalliq rivayat / riwaayat ki tehqeeq / tahqeeq, Confirmation of a hadith / Researching a hadith regarding of making loud noises on the Friday of the fifteenth of Ramadan / ramzaan / ramzan

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.