سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، یعنی اس نے دو دفعہ کہا اور عورت کے گھر والوں کو یہ کہا کہ اس کو یہاں سے لے جاؤ، اگر اس کو لے کر نہیں گئے تو میں اسے ہمیشہ کے لیے اپنے اوپر حرام کر لوں گا یا پھر یہ ہمیشہ کے لیے مجھ پر حرام ہو جائے گی، رہنمائی فرمائیں کہ ان صاحب کے اس عمل پر شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ دو مرتبہ طلاق کے الفاظ کہنے سے دو طلاق رجعی واقع ہوگئی ہیں، اور "لفظ حرام کرلوں گا" یا "حرام ہوجائے گی" چونکہ محض مستقبل میں طلاق دینے کے ارادے کا اظہار ہے، لہذا ان الفاظ سے تیسری طلاق واقع نہ ہوگی۔ دو طلاق رجعی کا حکم یہ ہے کہ عدت کے دوران شوہر اگر رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
رجوع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے کہہ دے کہ "میں نے رجوع کرلیا ہے" تو رجوع ہوجائے گا، اور بہتر یہ ہے کہ اس پر دو گواہ بھی بنالے۔ اگر زبان سے کچھ نہ کہے، مگر آپس میں میاں بیوی کا تعلق قائم کرلے یا خواہش اور رغبت سے اس کو ہاتھ لگالے، تب بھی رجوع ہو جائے گا، البتہ اگر عدت گزر گئی، تو پھر باہمی رضامندی سے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ صورت مسئولہ میں رجوع یا نیا نکاح کرنے کے بعد اب شوہر کو صرف ایک طلاق دینے کا اختیار باقی ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 229)
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمْسَاکٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ....الخ
الھدایة: (کتاب الطلاق، 394/2)
واذا طلق الرجل امراتہ تطلیقة رجعیة او تطلیقتین فلہ ان یراجعھا فی عدتھا۔
الدر المختار مع رد المحتار: (401/3)
وندب اعلامھا بھا۔۔۔وندب الاشہاد بعدلین (قولہ ولو بعد الرجعة بالفعل۔۔۔ فالسنی ان یراجعھا بالقول ویشھد علی رجعتھا ویعلمھا ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی