عنوان: کسی کی زمین پر مالک کی اجازت سے تعمیر کرنے اور اس کے کرایہ کا حکم(4420-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! فریق اول کے پاس زمین کا ایک ٹکڑا تھا، فریق دوئم نے اپنا سرمایہ استعمال کر کے اس زمین پر ایک عمارت بنائی، اب فریق دوئم اس عمارت کو اپنے کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے، فریق دوئم کا کہنا ہے کہ چونکہ عمارت کی تعمیر میں صرف اسی نے اپنا سرمایہ استعمال کیا ہے، لہذا جب تک فریق اول اسے اس کا سرمایہ جو کہ عمارت کی تعمیر میں استعمال ہوا ہے، واپس نہیں کرے گا، تب تک وہ یعنی فریق دوئم عمارت کا کرایہ ادا کرنے کا پابند نہیں ہے۔
واضح رہے کہ دونوں کے مابین شروع میں اس طرح کی کوئی بھی شرط طے نہیں ہوئی تھی، اس تناظر میں رہنمائی فرمائیں کہ فریق دوئم کا موقف ٹھیک ہے یا نہیں؟ نیز فریقین کے مابین کرایہ کی ممکنہ صورت کیا ہو سکتی ہے؟
تنقیح:
محترم!
اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ فریق دوم نے فریق اول کی زمین پر اس کی اجازت سے تعمیر کی تھی، یا بغیر اجازت کے؟
نیز اگر اجازت سے تعمیر کی تھی، تو آیا اس زمین کو استعمال کرنے کی کوئی مدت بھی طے کی گئی تھی یا نہیں ؟یعنی فریق دوم کب تک اس جگہ کو استعمال کرے گا، اس سلسلے میں کچھ طے ہوا تھا یا نہیں؟
ان باتوں کی وضاحت فرمائیے اس کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
جواب تنقیح:
مفتی صاحب ! فریق دوم نے تعمیر فریق اول کی اجازت سے کی تھی، لیکن فریقین کے مابین اس عمارت کو استعمال کرنے کی مدت طے نہیں ہوئی تھی.
دوسری بات یہ ہے کہ فریقین کے مابین یہ طے پایا تھا کہ عمارت کی تعمیر میں زیادہ سرمایہ خرچ نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کے برعکس فریق دوم عمارت کی تعمیر پر تقریباً باون، ترپن لاکھ (5200000،5300000) کی رقم خرچ کر چکا ہے.

جواب: مذکورہ صورت اپنی زمین دوسرے کو عاریت (کسی کو اپنی چیز بلا معاوضہ استعمال کیلئے دینے) کی ہے، اس زمین کا مالک فریق اول ہے، اور فریق دوم اپنے سرمایہ سے بنائی ہوئی تعمیر کا مالک ہے، لہذا صورت مسئولہ میں فریق اول کو شرعا یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنی زمین واپس لینے کا مطالبہ کر سکتا ہے، ایسی صورت میں فریق دوم پر تعمیر کردہ عمارت ہٹا کر فریق اول کو زمین واپس کرنا لازم ہوگا، نیز ایسی صورت میں فریق اول پر تعمیر کی قیمت یا اخراجات شرعا لازم نہیں ہونگے (تاہم اگر فریق اول اپنی طرف سے تبرع یا مصالحت کے طور پر کچھ اخراجات دینا چاہے، تو دے سکتاہے)، البتہ اگر عمارت گرانے کی وجہ سے زمین کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو فریق اول کو اختیار ہے کہ تعمیر نہ گرانے دے، بلکہ تعمیر کو ملبے کی حالت میں فرض کرکے اس ملبے کی جو قیمت ہو، وہ فریق دوم کو ادا کرکے خود تعمیر کا مالک بن سکتا ہے، اس صورت میں فریق اول آئندہ کیلئے اپنی زمین کے استعمال کرنے کے عوض فریق دوم سے کرایہ کا مطالبہ کرسکتا ہے، اور اپنی زمین کا کرایہ لینے کے لئے فریق اول پر تعمیر کا خرچہ دینا شرعا لازم نہیں ہے۔
نیز مذکورہ صورت میں فریق اول، فریق دوم سے باہمی رضامندی کے ساتھ طے شدہ قیمت کے عوض اس تعمیر کی خریداری بھی کرسکتا ہے، ایسی صورت میں زمین اور تعمیر دونوں فریق اول کی ہو جائیں گی، اسی طرح فریق دوم، فریق اول کی رضامندی سے، اس سے زمین خرید کر اس زمین کا بھی مالک بن سکتا ہے۔
لہذا فریقین کو چاہئیے کہ آپس میں مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے کوئی جائز صورت اختیار کرلیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (216/6، ط: دار الکتب العلمیة)
(فصل في صفة الحكم في الإعارة)
وأما صفة الحكم فهي أن الملك الثابت للمستعير ملك غير لازم؛ لأنه ملك لا يقابله عوض، فلا يكون لازما كالملك الثابت بالهبة، فكان للمعير أن يرجع في العارية سواء أطلق العارية أو وقت لها وقتا، وعلى هذا إذا استعار من آخر أرضا ليبني عليها أو ليغرس فيها، ثم بدا للمالك أن يخرجه فله ذلك سواء كانت العارية مطلقة أو موقتة، لما قلنا غير أنها إن كانت مطلقة له أن يجبر المستعير على قلع الغرس ونقض البناء؛ لأن في الترك ضررا بالمعير؛ لأنه لا نهاية له، وإذا قلع ونقض لا يضمن المعير شيئا من قيمة الغرس والبناء؛ لأنه لو وجب عليه الضمان لوجب بسبب الغرور، ولا غرور من جهته، حيث أطلق العقد ولم يوقت فيه وقتا فأخرجه قبل الوقت، بل هو الذي غرر نفسه حيث حمل المطلق على الأبد

درر الحكام شرح غرر الحکام: (243/2، ط: دار إحياء الكتب العربية)
[إعارة الأرض للبناء والغرس]
(صح الإعارة) أي إعارة الأرض (للبناء والغرس) ؛ لأن منفعتها معلومة تملك بالإجارة فتملك بالإعارة (وله) أي للمعير (أن يرجع) ؛ لأن الإعارة ليست بلازمة (ويكلف قلعهما) أي البناء والغرس؛ لأنه شاغل أرضه بملكه فيؤمر بالتفريغ إلا إذا شاء أن يأخذهما بقيمتهما إذا استضرت الأرض بالقلع فحينئذ يضمن له قيمتهما مقلوعين ويكونان له كي لا تتلف أرضه عليه ويستبد ذلك به؛ لأنه صاحب أصل، وإذا لم تستضر به لا يجوز الترك إلا باتفاقهما ولا يشترط الاتفاق في القلع بل أيهما طلبه أجيب (وضمن رب الأرض ما نقص) البناء والغرس بالقلع (إن وقت) لعارية؛ لأنه مغرور من جهته حيث وقت له والظاهر هو الوفاء بالعهد فيرجع عليه دفعا للضرر عن نفسه (وكره) أي الرجوع (قبله) أي قبل وقت عين؛ لأن فيه خلف الوعد

الاشباہ و النظائر: (کتاب الغصب، 98/2)
لایجوز التصرف فی مال غیرہ بغیر إذنہ ولا ولایتہ

فتح القدیر للشوکانی: (521/1)
قولہ تعالیٰ : ’’والصلح خیر‘‘ لفظ عام یقتضی أن الصلح الذی تسکن إلیہ النفوس ویزول بہ الخلاف خیر علی الإطلاق

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1940 May 26, 2020
kisi zameen par maalik ki ijazat sy taameer karne or / aur us k / kay kiraye ka hukum, Ruling / Order to build on someone's land with the permission of the owner and ruling on its rent

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.