سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میری اپنی بیوی سے لڑائی ہو گئی تھی، جس پر میں نے اپنی بیوی کے بھائی کے گھر جا کر اپنی بیوی کی غیر موجودگی میں اس کے بھائی اور بھابھی کو غصہ میں کہا کہ میں آپ کی بہن کو فارغ کر رہا ہوں اور آج سے وہ میری طرف سے آزاد ہے، آپ لوگ آ کر حق مہر کے پیسے لے لیں تو کیا اس سے طلاق واقع ہو گئی یا نہیں؟
جب کہ یہ ساری باتیں میں نے اپنی بیوی کی غیر موجودگی میں کہی ہے۔
جواب: مذکورہ صورت میں آپ کی طرف سے غصے کی حالت میں کہے گئے الفاظ "آپ کی بہن کو فارغ کر رہا ہوں" یہ ایسا کنایہ ہے، جو صرف جواب کا احتمال رکھتا ہے، اور اس قسم کے کنایات سے قرینہ کے وقت بلا نیت بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، مذکورہ صورت میں آپ نے چونکہ جھگڑے کی وجہ سے غصہ کی حالت میں یہ الفاظ کہے ہیں، لہذا غصہ کے قرینے کی وجہ سے، آپ کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔ اس کے بعد آپ کے الفاظ "آج سے وہ میری طرف سے آزاد ہے" سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ یہ اپنی اصل کے اعتبار سے کنایہ کے ایسے الفاظ ہیں، جسے پہلی طلاق کی خبر قرار دینا ممکن ہے، ایسی صورت میں یہ پہلی طلاق بائن کے ساتھ ملحق نہیں ہوتی۔
لہذا مذکورہ صورت میں آپ کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوکر نکاح ختم ہوچکا ہے، اب رجوع نہیں ہوسکتا، البتہ اگر آپ دونوں اپنی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں، تو عدت کے اندر اور عدت کے بعد بھی، گواہوں کی موجودگی میں، نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، لیکن اس کے بعد آپ کے پاس دو طلاقوں کا اختیار ہو گا۔
واضح رہے کہ طلاق واقع ہونے کیلئے بیوی کا مجلس میں موجود ہونا کوئی ضروری نہیں ہے، بلکہ بیوی کی غیر موجودگی میں بھی جب اس کا نام لیکر یا اس کی طرف نسبت کرکے طلاق کے الفاظ کہے جائیں، تب بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (300/3، ط: دار الفکر)
ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له
(قوله توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب. بيان ذلك أن حالة الغضب تصلح للرد والتبعيد والسب والشتم كما تصلح للطلاق، وألفاظ الأولين يحتملان ذلك أيضا فصار الحال في نفسه محتملا للطلاق وغيره، فإذا عنى به غيره فقد نوى ما يحتمله كلامه ولا يكذبه الظاهر فيصدق في القضاء، بخلاف ألفاظ الأخير: أي ما يتعين للجواب لأنها وإن احتملت الطلاق وغيره أيضا لكنها لما زال عنها احتمال الرد والتبعيد والسب والشتم اللذين احتملتهما حال الغضب تعينت الحال على إرادة الطلاق فترجح جانب الطلاق في كلامه ظاهرا، فلا يصدق في الصرف عن الظاهر، فلذا وقع بها قضاء بلا توقف على النية كما في صريح الطلاق إذا نوى به الطلاق عن وثاق
و فیہ ایضا: (308/3، ط: دار الفکر)
قوله لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح، وقيد بقوله الذي لا يلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولا أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال، وحينئذ فيكون المراد بالصريح في الجملة الثانية أعني قولهم فالبائن يلحق الصريح لا البائن هو الصريح الرجعي فقط دون الصريح البائن، وبه ظهر أن ما نقله الشارح أولا عن الفتح من أن الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا خاص بالصريح في الجملة الأولى....الخ
فتاوی عثمانی: (377/2- 378، ط: معارف القرآن)
کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 47/807
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی