سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میرے بہنوئی کے پانچ بچے ہیں اور پانچوں پڑھ رہے ہیں، بہنوئی کو پچھلی جاب کے ختم ہونے پر جو جاب فنڈ ملا تو انہوں نے ان پیسوں سے ایک کنال زمین خرید لی کہ اگر بچوں کی پڑھائی میں پیسوں کی ضرورت پڑی اور پیسے پاس نہ ہوئے تو اس زمین کو بیچ کر خرچ پورا کروں گا، تو کیا سال پورا ہونے پر اس زمین پر زکوۃ فرض ہو گی یا نہیں؟
اگر فرض ہو گی تو کیا جس قیمت پر زمین خریدی تھی، اسی قیمت کے تناسب سے زکوۃ فرض ہوگی یا ایک سال گزرنے کے بعد کی جو مالیت ہے، اس قیمت پر زکوة فرض ہو گی؟
جواب: واضح رہے کہ پلاٹ پر زکوة کے وجوب سے متعلق ضابطہ سمجھنا ضروری ہے کہ جو پلاٹ تجارت کی حتمی نیت سے خریدا جائے، اُس پر زکوة واجب ہوتی ہے اور جو پلاٹ رہائش کی نیت سے خریدا جائے، یا سرمایہ محفوظ کرنے کےلیے خریدا جائے تو اُس پر زکوة واجب نہیں ہوتی،
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر پلاٹ سرمایہ محفوظ کرنے کی نیت سے خریدا کہ کل کام آئے گا اور خریدتے وقت تجارت کی حتمی نیت نہیں تھی تو اس پلاٹ پر زکوة واجب نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتح القدير: (178/2، ط: دار الکتب العلمیة)
ومن اشترى جاريةً للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة)؛ لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة، (وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة)؛ لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر".
الدر المختار: (286/2، ط: دار الفکر)
وتعتبر القیمة یوم الوجوب، وقالا یوم الأداء
الھندیة: (179/1، ط: دار الفکر)
الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب.
فتاوی عثمانی: (41/2)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی