سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! گھر میں موجود کون کون سی چیزیں ہیں، جن کو مال زکوۃ میں شمار کیا جائے گا یا کوئی بھی چیز مال زکوۃ میں شامل نہیں؟
نیز یہ بھی بتائیں کہ اسی طرح انسان کی ذاتی چیزیں، مثلاً: کپڑے، جوتے وغیرہ کی بھی زکوة کے باب میں کوئی تعداد متعین ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ زکوٰۃ صرف ان چیزوں پر فرض ہے، جو عادۃً بڑھتی ہوں، (خواہ حقیقتاً بڑھے یا حکماً) جیسے سونا، چاندی، نقدی، مال تجارت اور مویشی، چونکہ سونا، چاندی اور نقدی کو شریعت نے تجارت کا ذریعہ قرار دیا ہے، خواہ اس کو زیور کی شکل میں بنا کر رکھے یا سونے چاندی کے ٹکڑے بنا کر رکھے، ہر حال میں وہ تجارت کا مال ہے، اسی لئے سونے چاندی پر خواہ وہ کسی صورت میں بھی ہوں، زکوۃ فرض ہوتی ہے، بشرطیکہ اس کی مالیت بقدر نصاب یا اس سے زیادہ ہو۔
ان اموال کے علاوہ ذاتی مکان، دکان، برتن، کپڑے، جوتے، فرنیچر اور دیگر گھریلو سامان، فیکٹری کی مشینری اور جواھرات خواہ کتنی ہی قیمت کے ہوں، اگر تجارت کے لئے نہیں ہیں، تو ان پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی، لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی فروخت کرنے کی نیت سے خریدی گئی ہو، اور اس کی قیمت نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہے، تو اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (کتاب الزکاۃ، 11/2، ط: سعید)
منھا کون المال نامیالان معنی الزکاۃوھوالنماء لایحصل الامن المال النامی ولسنانعنی بہ حقیقۃ النماء لان ذلک غیر معتبر وانما نعنی بہ کون المال معدا للاستنماء بالتجارۃ۔۔۔۔۔والتجارۃ سبب لحصول الربح فیقام مقام المسبب ....والتجارۃ فی اموال التجارۃ الا ان الإعداد للتجارۃ في الأثمان المطلقۃ من الذہب والفضۃ ثابت بأصل الخلقۃ لأنہا لا تصلح للانتفاع بأعیانہا في دفع الحوائج الأصلیۃ فلا حاجۃ إلی الإعداد من العبد للتجارۃ بالنیۃ إذا النیۃ للتعیین وہي متعینۃ للتجارۃ بأصل الخلقۃ فلا حاجۃ إلی التعیین بالنیۃ فتجب الزکاۃ فیہا نوی التجارۃ أو لم ینو أصلاً أو نوی النفقۃ الخ۔
الھندیۃ: (کتاب الزکوٰۃ، 172/1، ط: زکریا)
ومنہا فراغ المال عن حاجتہ الأصلیۃ فلیس في دور السکنیٰ وثیاب البدن وأثاث المنزل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ وکذا طعام أہلہ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی