سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میں آن لائن ٹیوشن پڑھاتا ہوں، میرے بہت سے اسٹوڈنٹس غیر مسلم، آغا خانی ہوتے ہیں، اسی طرح بعض اسٹوڈنٹس کے والد بینک میں جاب کرتے ہیں، تو کیا میں فیس کی مد میں ان سے جو رقم لیتا ہوں وہ میرے لیے حلال ہے یا حرام؟
جواب: 1 . جو شخص کنونشنل بینک میں ملازم ہو، اور اس کی ملازمت کا تعلق براہ راست سودی لین سے نہ ہو، جیسے ڈرائیور، چوکیدار وغیرہ، ایسے شخص سے فیس کی مد میں رقم وصول کرنے کی گنجائش ہے، لیکن اگر اس کی ملازمت کا تعلق براہ راست سودی لین دین سے ہو مثلا: کیشیئر، اکاونٹنٹ، سودی قرضہ فراہم کرنا وغیرہ، تو ایسا شخص اگر اپنی اسی تنخواہ سے فیس کی ادائیگی کرے تو اس کا لینا جائز نہیں ہے۔
2. جو شخص ایسے غیر سودی بینک میں ملازم ہو، جو مستند علماء کرام کی نگرانی میں کام کرتا ہو، اس سے فیس کی مد میں رقم وصول کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (کتاب الکراھیة، 397/5، ط: زکریا)
آکل الربا وکاسب الحرام أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام لا یقبل، ولا یأکل مالم یخبرہ أن ذلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالا لا بأس بقبول ہدیتہ، والأکل منہا کذا فی الملتقط ۔
تکملۃ فتح الملہم: (619/1)
قولہ: وکتابتہ، لانہ اعانۃ علیہ ومن ھنا ان التوقف فی البنوک الربویۃ لایجوز فان کان عمل الموظف فی البنک ما یعین علی الربا کالکتابۃ او الحساب فلذالک حرام لوجھیک، الاول اعانۃ علی المعصیۃ، والثانی اخذ الاجرۃ من مال الحرام
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی