سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! اگر کسی گھر یا پلاٹ خریدنے میں جو رقم استعمال ہوئی ہو، اس رقم کا کچھ حصہ رشوت سے حاصل ہوا ہو، تو ایسے پلاٹ یا گھر کو بیچ کر جو رقم ورثاء میں تقسیم ہو گی، کیا وہ ورثاء کے لیے کُلّی طور پر حلال یاحرام ہو گی یا جُزوی طور پر؟
جواب: واضح رہے کہ اگر مال حرام اور مال حلال اس طور پر مخلوط ہو کہ تمییز نہ ہوسکے، جیسا کہ صورت مسؤلہ میں ہے، تو اس صورت میں مالک کا علم ہونے کی صورت میں رشوت کے بقدر مال کو واپس کرکے اور مالک کا علم نہ ہونے کی صورت میں فقراء کو بغیر نیت ثواب صدقہ کرکے بقیہ مال کو ورثاء کے لئے استعمال میں لانا جائز ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (باب البیع الفاسد)
مات وکسبہ حرام فالمیراث حلال ثم رمز وقال لانأخذ بہذہ الروایۃ وہوحرام مطلقاعلی الورثۃ فتنبہ۔اہ۔ح، ومفادہ الحریۃ
وإن لم یعلم أربابہ وینبغی تقییدہ بما إذا کان عین الحرام لیوافق ما نقلناہ، إذ لو اختلط بحیث لا یتمیز یملکہ ملکا خبیثا، لکن لا یحل لہ التصرف فیہ ما لم یؤد بدلہ کما حققناہ قبیل باب زکاة المال فتأمل.
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: (246/34)
وصرح الحنفیۃ بأنہ إذا مات الرجل وکسبہ خبیث کأن کان من بیع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوۃ، فالأولی لورثتہ أن یردوا المال إلی أربابہ، فإن لم یعرفوا أربابہ تصدقوا بہ؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ وفي البزازیۃ: إن علم المال الحرام بعینہ لا یحل لہ (للوارث) أخذہ، وإن لم یعلم بعینہ أخذہ حکما، وأما فی الدیانۃ فإنہ یتصدق بہ بنیۃ الخصماء۔
کذا فی فتاویٰ دار العلوم دیوبند: رقم الفتوی: 1092-955/L=10/1440
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی