سوال:
مفتی صاحب ! ہمارے گھر میں صبح صبح موبائل پر آڈیو سورہ یٰس اور سورہ رحمٰن کی تلاوت لگائی جاتی ہے، جس کے دوران ہم اپنے گھر کے دوسرے معمولات بھی نمٹا رہے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ جب تلاوت ہو تو اُس کا حق ہے کہ اسے ادب سے سنا جائے، کہیں ایسا تو نہیں کہ تلاوت کے دوران ہم گھر کے دیگر کاموں کو نمٹانے میں مصروف ہو کر قرآن کریم کی بے ادبی کے مرتکب ہو رہے ہوں؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں تلاوت چونکہ موبائل آڈیو کے ذریعہ سے سنی جارہی ہے، جس کے دوران خاموش رہنا اور اسے غور سے سننا مستحب ہے، لہذا اپنے گھریلومعمولات کے دوران پسِ منظر میں تلاوتِ قرآن لگانا، جبکہ تلاوت کی طرف توجہ بھی نہ ہو تو یہ قرآن کریم کے آداب کے خلاف ہے، اس سے بچنا چاہیے، البتہ اگر اپنے معمولات کی مصروفیت کے دوران خاموشی سے تلاوت سنی جائے اور دھیان تلاوت کی طرف ہو تو ایسا کرنے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
التفسیر المظہری: (الاعراف، الایة: 204، 480/3، ط: زکریا)
اختلف العلماء في وجوب الاستماع والإنصات علی من ہو خارج الصلاۃ یبلغہ صوت من یقرأ القرآن في الصلاۃ أو خارجہا، قال البیضاوي: عامۃ العلماء علی استحبابہا خارج الصلاۃ، وقال ابن الہمام: وفی کلام أصحابنا ما یدل علی وجوب الاستماع في الجہر بالقراء ۃ مطلقا، قال في الخلاصۃ: رجل یکتب الفقہ وبجنبہ رجل یقرأ القرآن فلا یمکنہ استماع القرآن، فالإثم علی القارئ، وعلی ہذا لو قرأ علی السطح في اللیل جہرا والناس نیام یأثم، وہذا صریح في إطلاق الوجوب؛ ولأن العبرۃ لعموم اللفظ دون خصوص السبب الخ۔
تفسیر البیضاوی: (الاعراف، الایة: 204، 180/2، ط: المکتبة السعدیة)
وظاہر اللفظ یقتضی وجوبہما حیث یقرأ القرآن مطلقا وعامۃ العلماء علی استحبا بہما خارج الصلاۃ۔
تفسیر المنار: (552/9- 553)
وحکی ابن المنذر: الاجماع علی عدم وجوب الاستماع والانصات فی غیر الصلٰوۃ والخطبۃ وذالک ان یجابھما علی کل من یسمع احداً یقرأ فیہ حرج عظیم لانہ یقتضی ان یترک لہ المشتغل بالعلم علمہ والمشتغل بالحکم حکمہ الخ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی