عنوان: "جنت میں اللہ رب العزت سورہ رحمن کی تلاوت خود فرمائے گا" حدیث کا حکم(4491-No)

سوال: کیا یہ بات صحیح ہے کہ اللہ تعالی جنت میں سورۃ رحمن کی تلاوت فرمائیں گے؟

جواب: بعض خطباء اپنے بیان میں یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ "جنت میں جنتی حضرت داؤد علیہ السلام کی تلاوت سن کر دو سو سال وجد کی کیفیت میں رہیں گے، جب اس کیفیت سے باہر ہوں گے تو اللہ تعالی فرمائے گا ’’میرے بندو! تم نے اس سے بہتر آواز پہلے کبھی سنی ہے؟‘‘ وہ کہیں گے ’’اے اللہ! ہم نے اس سے بہتر آواز نہیں سنی‘‘۔ اللہ تعالی فرمائے گا ’’میں تمھیں سنواؤں گا‘‘۔ پھر اللہ تعالی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمائے گا ’’اے میرے محبوب! ان بندوں کو سورۂ طٰہٰ اور سورۂ یٰسٓ پڑھ کر سناؤ‘‘۔ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ تعالی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت داؤد علیہ السلام سے ستر گنا زیادہ خوش الحانی عطا فرمائے گا اور اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم جب خوش الحانی کے ساتھ اللہ کا قرآن پڑھیں گے تو پانچ سو سال جنتیوں پر وجد کی کیفیت رہے گی۔ پھر جب کچھ ٹھیک ہوں گے تو اللہ تعالی پوچھے گا ’’اے میرے بندو! تم نے اس سے زیادہ اچھی آواز کبھی سنی ہے؟‘‘۔ بندے عرض کریں گے ’’اے اللہ! کبھی نہیں سنی‘‘۔ اللہ تعالی فرمائے گا ’’میں تمھیں سناتا ہوں‘‘۔ چنانچہ اللہ رب العزت سورۂ رحمن کی تلاوت خود فرمائے گا۔
اس روایت کو بغیر سند کے فقیہ ابو اللیث سمرقندی المتوفی 373ھ نے اپنی کتاب " قرة العیون و مفرح القلوب المخزون" (ص: 134، ط: دارالخلفاء) میں ان الفاظ میں نقل کیا ہے، لیکن انہوں نے سورة رحمن کے بجائے سورة الانعام کی تلاوت کا ذکر کیا ہے۔
امام صفوری نے بھی "نزهة المجالس" (ج:2، ص:211 ط: المطبعه الكاستلية ) میں سورة الانعام کی تلاوت کا لکھا ہے۔
فتح العلي المالك في الفتوى على مذهب الإمام مالك میں أبو عبد الله المالكي المتوفى ١٢٩٩ھ نے سورت کی تعین کے بغیر مطلقا تلاوت فرمانے کا لکھا ہے۔
دقائق الأخبار فی ذکر الجنة و النار میں امام عبدالرحیم بن احمد قاضی نے سورة رحمن کی تلاوت کا لکھا ہے اور فی روایة کہہ کر سورة الانعام کی تلاوت کا لکھا ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ بالا کتب علمائے کرام کے ہاں مستند نہیں ہیں۔
ابو اللیث سمرقندی کی کتاب "قرة العيون و مفرح القلب المخزون" پر تبصرہ:
" تحذير المسلمين من الأحاديث الموضوعة على سيد المرسلين" میں شيخ محمد بن بشير أزهري، شافعی لکھتے ہیں:
وہ کتابیں جو من گھڑت اور اسرائیلی روایات سے بھری ہوئی ہیں، ان میں سے صفوری کی "نزھةالمجالس و منتخب النفائس" ہے، اس کے مولف نے اس کتاب کو اتنی من گھڑت روایات سے بھرا ہے، جو شمار میں نہیں آتی اور اس کتاب میں ایسی حکایات ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں اور ابو اللیث سمرقندی کی "تنبیہ الغافلین " ہے ، جس کے بارے میں حافظ ذھبی فرماتے ہیں کہ اس میں بہت سی من گھڑت روایات ہیں اور اسی طرح ان کی کتاب " قرة العيون و مفرح القلب المخزون" بھی ہے، یعنی اس میں بھی من گھڑت اور بے اصل روایات ہیں۔
امام صفوری کی کتاب "نزھةالمجالس و منتخب النفائس" پر علمائے کرام کے تبصرے:
یہ کتاب ان کتب میں سے ہے، جو من گھڑت اور اسرائیلی روایات سے بھری ہوئی ہیں۔( مذکورہ بالا حوالہ)
محمد بن محمد ابو شھبہ لکھتے ہیں:
جن کتب سے اجتناب کرنا چاہیے، ان میں سے کتاب "نزھةالمجالس" بھی ہے، اس کتاب میں عام لوگوں کی عقلوں کو برباد کیا گیا ہے، کیونکہ اس میں بہت زیادہ من گھڑت باتیں اور جھوٹ لکھے گئے ہیں اور جب صفوری نے یہ کتاب لکھی تو محدث دمشق برھان الدین ناجی نے اس کا معارضہ کیا(اس پر تبصرہ و تنقید کی ہے) اور ان کی غلطیوں اور جھوٹ کو پکڑا ہے اور یہ بیان کیا کہ اس کتاب میں جو کچھ ہے، وہ بہت زیادہ من گھڑت ہے اور اس میں سے ایک رسالہ لکھ کرامام سیوطی کے پاس مصر بھیجا تو امام سیوطی نے اس کے من گھڑت اور اس کی بناوٹ پر برھان الدین ناجی کی بات سے اتفاق کیا۔
ابن طولون نے مفاكهة الخلان في حوادث الزمان میں لکھا ہے:
امام صفوری کی اس کتاب میں ذکر کردہ موضوع (من گھڑت ) اور بے اصل روایات کی بنیاد پر شیخ شہاب الدین الحمصی نے جامع اموی سے ان کی درس کی کرسی( مسند)ہٹانے کا حکم دیا۔
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں "نزهة المجالس" کے حوالے سے روایات نقل کرنے کے بعد فرمایا:
علمائے کرام اور اکابرین کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ اس کتاب میں لکھی گئی سطور کا بغور مطالعہ کریں، کیا ان کو کتاب میں لکھا جانا چاہیے اور پھر اس کانام "نزهة المجالس" رکھا جانا چاہیے اور ہر آدمی کے پاس اس کا پہنچ جانا، جو صحیح اور غلط کی تمیز نہ کرسکتا ہو اور پھر اسے لوگ آگے نقل در نقل کرتے چلے جائیں اور اسی سے اقتباس کریں۔
دقائق الأخبار في وصف الجنة والنار پر تبصرہ:

اسلام ویب، فتوی نمبر:45458 پر"دقائق الأخبار" سے متعلق سوال کے جواب میں لکھا گیا کہ
"دقائق الأخبار في وصف الجنة والنار" میں قصص اور آخرت سے متعلق خبریں یعنی: بعثت، حساب اور جنت کی صفات اور نعمتیں اور جہنم کے اوصاف اور عذاب کا تذکرہ ہے اور بلاشک و شبہ اس کتاب میں ذکر کردہ بہت سی حکایات اور قصص کسی معتبر شرعی دلیل سے ثابت نہیں ہے، کیونکہ یہ باتیں ان امور غیبیہ میں سے ہیں، جن میں رائے کو کوئی دخل نہیں ہے، لہذا جو بات صحیح یا حسن ہوگی، وہی قابل قبول ہوگی۔
ایک اور سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ اس کتاب کی نسبت بہت سے مولفین کی طرف کی گئی ہے، بعض نے اس کو امام سیوطی کی طرف منسوب کیا اور بعض نے اس کو امام غزالی کی طرف اور بعض نے امام عبدالرحیم بن احمد قاضی کی طرف نسبت کی ہے، اور اکثریت نے اس کی نسبت آخر الذکر کی طرف کی ہے۔
خلاصہ کلام:
اس ساری تفصیل سے یہ واضح ہوا کہ "جنت میں اللہ تعالی کا سورة رحمن کی تلاوت فرمانا" اس کے متعلق روایت موضوع (من گھڑت ) ہے، لہذا جب تک کسی صحیح روایت سے اس کا ثبوت نہیں ملتا، اس وقت تک اس روایت کو بیان کرنا اور آگے پھیلانا درست نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

قرة العيون و مفرح القلوب المحزون للابي الليث السمرقندي: (ص: 134، ط: دار الخلفاء)
فيقول الله سبحانه وتعالى: (ارق على المنبر واسمع عبادي عشر سور من الزبور) فيطلع على المنبر، يقرأ العشر سور فيطرب القوم على صوت داود عليه السلام......فإذا قرأ يقول الله عز وجل: يا عبادى هل سمعتم صوتا أطيب من هذا؟ فيقولون لا يا ربنا، ما طرق اسماعنا أطيب من صوت نبيك داود عليه السلام، فيقول الله عز وجل:( لأسمعنكم أطيب من هذا يا حبيبي يا محمد ارق على المنبر واقرأ سورة طه ويس) فيقرأ النبي صلى الله عليه وسلم فيزيد في الخسن صوت النبي صلى الله عليه وسلم على صوت داود عليه السلام سبعين ضعفا فيطرب القوم و تطرب الكراسى من تحتهم، والحور والولدان و الغلمان ولا يبقى ذو روح الا طرب لحسن صوت النبي صلى الله عليه وسلم فإذا فرغ من قراءة سورة طه و يس يقول الله سبحانه وتعالى يا عبادي هل سمعتم صوتا أطيب ولا احلى من صوت حبيبنا محمد صلى الله عليه وسلم فيقول الله عز وجل :وعزتي وجلالي لأسمعنكم أطيب منه فيقرا عز وجل و تم كلامه  سورة الأنعام....

نزهة المجالس و منتخب النفائس لعبد الرحمن بن عبد السلام الصفوري: (211/2، ط: المطبعه الكاستلية)
فقال يا داود أسمعهم كلامي فيرقى على منبره ويقرأ الزبور فيتواجدون عن الطرب فإذا أفاقوا قال يا عبادي هل سمعتم صوتا أطيب من هذا فيقولون لا يا ربنا فيقول وعزتي وجلالي لأسمعنكم أطيب منه يا محمد قم وارق واقرأ سورة طه ويس فيزيد في صوت محمد في الحسن على صوت داود سبعين ضعفا فيتواجدون من الطرب وتهتز الكراسي من تحتهم فإذا أفاقوا قال يا عبادي هل سمعتم صوتا أطيب من هذا فيقولون لا يا ربنا فيقول وعزتي وجلالي لأسمعنكم أطيب منه فيتكلم سبحانه وتعالى في سورة الأنعام فيطرب القوم فتتمايل الأشجار والقصور ويهتز العرش....

فتح العلي المالك في الفتوى على مذهب الإمام مالك لأبي عبد الله المالكي: (27/2، ط: دار المعرفة)
قَدْ وَرَدَ «أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَقُولُونَ يَا رَبَّنَا كُنَّا فِي الدُّنْيَا نُحِبُّ ذِكْرَك وَسَمَاعَ كَلَامِكَ مِنْ الْكِتَابِ الْعَزِيزِ فَيَقُولُ اللَّهُ - تَعَالَى - يَا دَاوُد اصْعَدْ عَلَى الْمِنْبَرِ وَأَسْمِعْ أَحْبَابِي عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ الزَّبُورِ فَيُطْرَبُ الْقَوْمُ مِنْ صَوْتِ دَاوُد فَإِذَا أَفَاقُوا يَقُولُ اللَّهُ - سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى - يَا عِبَادِي هَلْ سَمِعْتُمْ صَوْتًا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا فَيَقُولُونَ مَا سَمِعْنَا صَوْتًا أَطْيَبَ مِنْ هَذَا فَيَقُولُ اللَّهُ - سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى - يَا حَبِيبِي يَا مُحَمَّدُ اصْعَدْ عَلَى الْمِنْبَرِ وَاقْرَأْ سُورَةَ طَهَ وَيس فَيَقْرَؤُهُمَا النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَيَزِيدُ حُسْنُ صَوْتِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى صَوْتِ دَاوُد بِسَبْعِينَ ضِعْفًا فَيُطْرَبُ الْقَوْمُ وَتُطْرَبُ الْكَرَاسِيُّ مِنْ تَحْتِهِمْ وَتُطْرَبُ قَنَادِيلُ الْعَرْشِ وَالْمَلَائِكَةُ وَالْحُورُ وَالْوِلْدَانُ وَيَمُوجُونَ مِنْ الطَّرَبِ فَإِذَا أَفَاقُوا حَمِدُوا اللَّهَ تَعَالَى وَشَكَرُوهُ عَلَى مَا أَعْطَاهُمْ مِنْ النَّعِيمِ فَيَقُولُ اللَّهُ - سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى - يَا عِبَادِي قَدْ أَكْمَلْتُ لَكُمْ ذَلِكَ الطَّرَبَ بِالنَّظَرِ إلَى وَجْهِي» وَلِأَهْلِ الْجَنَّةِ سَمَاعُ أَعْظَمَ مِنْ هَذَا وَأَجَلَّ لَيْسَ فَوْقَهُ سَمَاعٌ وَهُوَ سَمَاعُهُمْ كَلَامَ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَسَلَامَهُ عَلَيْهِمْ فَفِي الْحَدِيثِ «مَا مِنْكُمْ إلَّا مَنْ سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» وَقَالَ بَعْضُهُمْ إنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَدْخُلُونَ عَلَى الْجَبَّارِ كُلَّ يَوْمٍ مَرَّتَيْنِ فَيَقْرَأُ عَلَيْهِمْ الْقُرْآنَ وَهُمْ جَالِسُونَ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ مِنْ دُرٍّ وَيَاقُوتٍ وَزَبَرْجَدٍ وَذَهَبٍ وَزُمُرُّدٍ فَلَمْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُمْ بِشَيْءٍ وَلَمْ يَسْمَعُوا شَيْئًا قَطُّ أَعْظَمَ مِنْهُ ثُمَّ يَنْصَرِفُونَ إلَى مَنَازِلِهِمْ نَاعِمِينَ قَرِيرَةً أَعْيُنُهُمْ إلَى مِثْلِهَا مِنْ الْغَدِ....

دقائق الأخبار فی ذکر الجنة و النار للإمام عبدالرحیم بن احمد القاضي: (ص: 38، ط: دار الکتب العلمیة)
قال ابن عباس رضي الله عنهما فعند ذلك يتلو الرب جل جلاله سورة الرحمن، وفى رواية سورة الأنعام.....

تحذير المسلمين من الأحاديث الموضوعة على سيد المرسلين للشيخ محمد بن بشير الشافعی: (ص: 48، ط: دار الکتب العلمیة)
و من الکتب المشحونة بالموضوعات والخرافات الإسرائيلية كتاب" نزهة المجالس و منتخب والنفائس" للصفوري فإن مؤلفه رحمه الله قد شحنه بالموضوعات مما لا يدخل تحت حصر، و فيه حكايات لا أصل لها. و كتاب تنبيه الغافلين لأبي الليث السمرقندي، ذكر الحافظ الذهبي ان فيه موضوعات كثيرة كما في كتاب كشف الظنون.
و كتاب " قرة العيون و مفرح القلب المخزون" له أيضا.

مفاكهة الخلان في حوادث الزمان لابن طولون الدمشقي: (131/1، ط: دار الكتب العلمية)
وقال الشهاب الحمصي في ذيله: وفي يوم الخميس خامس عشر جمادى الأولى منها، منعت زين الدين الصفوري، المحدث من القراءة بالجامع الأموي، ومن غيره، وأمرت بشيل كرسيه من الجامع الأموي، وسببه أنه جمع كتاباً سماه: نزهة المجالس وذكر في أحاديث موضوعة على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم أحضر الكتاب المذكور وذكر أنه تاب ورجع عن الأحاديث الموضوعة فيه، وأنه لا يعود لذلك، والله يعلم المفسد من المصلح.

الوسيط في علوم و مصطلح الحديث لأبي شُهبة محمد بن محمد بن سويلم: (ص: 355، ط: دار الفكر)
ومما ينبغي الحذر منه كتاب "نزهة المجالس", فقد أفسد عقول العامة بما فيه من خرافات وأكاذيب، ولما ألف الصفوري هذا الكتاب عارضه برهان الدين الناجي محدث دمشق، وبين كثرة ما فيه من موضوع, وقد جمع منه رسالة وأرسلها إلى الإمام السيوطي بمصر فوافقه على كثير منها بالوضع والاختلاق.

الحاوي للفتاوي للإمام سيوطي: (45/2، ط: دار الکتب العلمیة)
وَالْمَسْؤُولُ - مِنْ مَوَالِينَا وَسَادَاتِنَا عُلَمَاءِ الْإِسْلَامِ وَحَسَنَاتِ اللَّيَالِي وَالْأَيَّامِ جَمَّلَ اللَّهُ تَعَالَى بِوُجُودِهِمْ، وَأَفَاضَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ مِنْ بَرَكَاتِهِمْ وَجُودِهِمْ - إِمْعَانُ النَّظَرِ فِيمَا سُطِرَ فِي هَذِهِ الْكُرَّاسَةِ هَلْ يَجُوزُ أَنْ يُدَوَّنَ فِي كِتَابٍ، وَيُسَمَّى نُزْهَةَ الْمَجَالِسِ وَمُنْتَخَبَ النَّفَائِسِ، وَيَتَدَاوَلَهُ مَنْ لَا مَعْرِفَةَ لَهُ تُمَيِّزُ بَيْنَ الصَّحِيحِ وَالسَّقِيمِ؟ وَيَكْتُبَهُ أَوْ يَسْتَكْتِبَهُ وَيُقْرَأَ وَيُنْقَلَ مِنْهُ.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 3688 Jun 10, 2020
kia / kiya Allah rabul izzat jannatiyo ke / kay samne surah rehman / rahman ki tilawat / tilaawat farmayen ge / gay?, Will Allah recite the Surah Al-Rahman before heavenly / people who will enter heaven / paradise?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.