سوال:
معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا حضرت یوسف علیہ السلام کی شادی زلیخا کے ساتھ ہوئی تھی؟
جواب: واضح رہے قرآن و حدیث میں حضرت یوسف علیہ السلام کی شادی کا صراحتاً یا اشارتاً کوئی ذکر نہیں ہے، البتہ کچھ مفسرین اور مورخین نے اسرائیلی روایات کی بناء پر نقل کیا ہے کہ عزیزِ مصر کی وفات کے بعد اس کی بیوی (جس کانام راعیل تھا اور مشہور یہ ہے کہ زلیخا تھا) کی شادی حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوگئی تھی اور ان سے دو بیٹے بھی پیدا ہوئے تھے، چنانچہ تفسیر طبری میں ابن جریر طبری نے محمد بن اسحاق کے حوالے سے نقل کیا ہے: محمد بن اسحاق سے روایت ہے کہ جب یوسف علیہ السلام نے بادشاہ سے کہا: "اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ" یعنی آپ مجھے ملک کے خزانوں کے (انتظام) پر مقرر کردیجیے، یقین رکھیے کہ مجھےان کی حفاظت کرنا خوب آتا ہے(اور) میں (اس کام کا) پورا پورا علم رکھتا ہوں" بادشاہ نے ان کو وزیر بنادیا اور اطفیر کے کام ان کے سپرد کیے اور اطفیر کو اس کے عہدے سے معزول کردیا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: "وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ"
(اسی طرح ہم نے یوسف کو ملک میں اقتدار عطا کیاکہ وہ اس میں جہاں چاہیں اپنا ٹھکانا بنائیں)محمد بن اسحاق کہتے ہیں: میرے سامنے ذکر کیا گیا کہ انہی راتوں میں اطفیر مرگیا اور بادشاہ ریان بن ولید نے یوسف علیہ السلام کی شادی اطفیر کی بیوی راعیل ( زلیخا) سے کردی اور جب یوسف علیہ السلام اس کے پاس گئے تو فرمایا: کیا یہ اس عمل سے بہتر نہیں ہے جس کی تم مجھے دعوت دے رہی تھی؟ تو اس نے کہا کہ اے سچے! مجھے ملامت نہ کریں، میں حسین و جمیل نازوں میں پلی عورت تھی اور میرا شوہر نامرد تھا اور جیسا کہ اﷲ نے آپ کو حسن دیا تھا، میرا نفس مجھ پر غالب آگیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کو کنواری پایا، اس سے قربت کی، آپ کے اس سے دو بیٹے ہوئے، ایک کا نام افرائیم اور دوسرے کا نام میشا بن یوسف تھا۔
علامہ قرطبی ؒ اپنی شہرہ آفاق تفسیر میں لکھتے ہیں: مصر کے بادشاہ نےیوسف علیہ السلام کی شادی ( عزیز کی وفات کے بعد) راعیل (زلیخا) عزیز مصر کی بیوی سے کردی۔ جب آپ اس کے پاس تشریف لائے تو فرمایا: کیا یہ اس سے بہتر نہیں ہے جو تو چاہتی تھی؟ وہ کہنے لگی: اے سچے! مجھے ملامت نہ کریں، میں حسین و جمیل نازوں میں پلی عورت تھی، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں اور میرا خاوند عورتوں کے پاس نہیں آتا تھا (نامرد تھا)۔ جیسا کہ اﷲ نے آپ کو حسن دیا تھا، میرا نفس مجھ پر غالب آگیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کو کنواری پایا، اس سے قربت کی، آپ کے اس سے دو بیٹے افراہیم اور منشاء پیدا ہوئے۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے: اور یہ بھی کہا گیا ہےکہ جب اس (زلیخا) کا شوہر مرگیا تو بادشاہ نے حضرت یوسف کی شادی (عزیز مصر)کی بیوی زلیخا سے کروا دی اور یوسف علیہ السلام نے ان کو کنواری پایا، کیونکہ ان کا شوہر نامرد تھا تو اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کے دو بچوں کو جنم دیا اور وہ دونوں افرایم اور منشا ہیں۔
شیخ الاسلام حضرت مولانامفتی تقی عثمانی صاحب فتاوی عثمانی میں لکھتے ہیں : بعض تاریخی روایات میں ایسا آیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح زلیخا سے ہوگیا تھا، لیکن قطعی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔( فتاوی عثمانی، ج:1،ص:308 ط:مکتبہ معارف القرآن،کراچی )
واضح رہے کہ یہ ساری تفصیل اسرائیلی روایات میں بیان کی گئی ہیں، اور اس قسم کی اسرائیلی روایات جن کے بارے میں قرآن و سنت اور دوسرے شرعی دلائل خاموش ہوں، ایسی روایات کے بارے میں آنحضرت ﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے، نہ ان کی تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب، لہذا شرعی اعتبار سے ایسی روایات حجت نہیں ہیں اور نہ ہی ہم ایسی روایات کی تصدیق یا تکذیب کرتے ہیں۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضرت یوسفؑ کی زلیخا کے ساتھ شادی کےبارے میں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ خاموش ہیں، ان میں کوئی تذکرہ نہیں ہے، اس لیے حتمی طور پر اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
جامع البيان في تأويل القرآن لابن جرير الطبري:(ج:16،ص:151،ط: مؤسسة الرسالة)
حدثنا ابن حميد قال، حدثنا سلمة، عن ابن إسحاق قال: لما قال يوسف للملك: (اجعلني على خزائن الأرض إني حفيظ عليم) قال الملك: قد فعلت! فولاه فيما يذكرون عمل إطفير وعزل إطفير عما كان عليه، يقول الله: (وكذلك مكنا ليوسف في الأرض يتبوأ منها حيث يشاء) ، الآية. قال: فذكر لي، والله أعلم أن إطفير هَلَك في تلك الليالي، وأن الملك الرَّيان بن الوليد، زوَّج يوسف امرأة إطفير راعيل، وأنها حين دخلت عليه قال: أليس هذا خيرًا مما كنت تريدين؟ قال: فيزعمون أنها قالت: أيُّها الصديق، لا تلمني، فإني كنت امرأة كما ترى حسنًا وجمالا ناعمةً في ملك ودنيا، وكان صاحبي لا يأتي النساء، وكنتَ كما جعلك الله في حسنك وهيئتك، فغلبتني نفسي على ما رأيت. فيزعمون أنه وجدَها عذراء، فأصابها، فولدت له رجلين: أفرائيم بن يوسف، وميشا بن يوسف.
الجامع الاحکام القرآن: (ج:9، ص: 182، ط: مکتبہ حقانیہ )
فَزَوَّجَ الْمَلِکُ یُوسُفَ رَاعِیلَ امْرَأَةَ الْعَزِیزِ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْهَا قَالَ: أَلَیْسَ هَذَا خَیْرًا مِمَّا کُنْتِ تُرِیدِینَ؟ فَقَالَتْ: أَیُّهَا الصِّدِّیقُ لَا تَلُمْنِی، فَإِنِّی کُنْتُ امْرَأَةً حَسْنَاء َ نَاعِمَةً کَمَا تَرَی، وَکَانَ صَاحِبِی لَا یَأْتِی النِّسَاءَ، وَکُنْتَ کَمَا جَعَلَکَ اللهُ مِنَ الْحُسْنِ فَغَلَبَتْنِی نَفْسِی فَوَجَدَهَا یُوسُفُ عَذْرَاءَ فَأَصَابَهَا فَوَلَدَتْ لَهُ رَجُلَیْنِ إِفْرَاثِیمَ بْنَ یُوسُفَ، وَمَنْشَا بْنَ یُوسُف.
البداية والنهاية: (ج:1،ص:210،ط:دارالفکر بیروت)
وَقِيلَ إِنَّهُ لَمَّا مَاتَ زَوَّجَهُ امْرَأَتَهُ زَلِيخَا فَوَجَدَهَا عَذْرَاءَ لِأَنَّ زَوْجَهَا كَانَ لَا يَأْتِي النِّسَاءَ فَوَلَدَتْ لِيُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلَامُ رَجُلَيْنِ وهما أفرايم وَمَنْشَا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی