سوال:
مفتی صاحب ! اگر لڑکی خلع لے یا لڑکا طلاق دے اور لڑکی اپنا حق مہر معاف کر دے تو کیا اس طرح حق مہر معاف ہو جاتا ہے یا پھر معاف کرنے کے بعد بھی ادائیگی لازم ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ اگر میاں بیوی دونوں کے درمیان نباہ نہ ہوسکے تو بوقتِ ضرورت مہر یا مال کے بدلے علیحدگی اختیار کرنا جائز ہے، البتہ اگر نشوز (نافرمانی) شوہر کی طرف سے ہے تو شوہر کیلئے مہر کی رقم یا دوسرا کوئی بھی مال بیوی سے طلاق کے بدلے لینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر نشوز (نافرمانی) بیوی کی طرف سے ہے تو پھر شوہر بقدر مہر رقم لے سکتا ہے، اس سے زیادہ نہ لیا جائے تو بہتر ہے، البتہ اگر زیادہ لے لیا تو یہ خلاف اولیٰ ہے، اور جو رقم یا چیز طلاق دینے کے بدلے معاف کروائی جائے، وہ معاف ہو جائے گی، بعد میں اس کو ادا کرنا لازم نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیۃ: (الباب الثامن فی الخلع، 489/1، ط: زکریا)
رجل خلع امرأتہ بمالہا علیہ من المہر.... کان الخلع بمھرہا إن کان المھر علی الزوج یسقط.
الفتاوی التاتارخانیة: (رقم: 7070، 61/4، ط: زکریا)
إذا أبرأت المرأۃ زوجہا عما لہا علیہ علی أن یطلقہا ففعل جاز ذٰلک فجازت البراء ۃ۔
الدر المختار: (445/3)
( وكره ) تحريما ( أخذ شيء ) ويلحق به الإبراء عما لها عليه ( إن نشز وإن نشزت لا ) ولو منه نشوز أيضا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح وصحح الشمني كراهة الزيادة وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی