سوال:
ہم کل چار بھائی ،چار بہنیں ہیں ،میرے والد صاحبؒ نے 2004 میں ایک جائیداد خرید کر ہم دو بھائیوں کے نام کی %80 جگہ میرے نام کی اور %20 دوسرے بھائی کے نام کی اور اس جگہ کو کو کرایہ پر دے دیا اور کرایہ اپنی ملکیت میں رکھا، یہ سلسلہ 2008 تک اسی طرح چلتا رہا،2008 میں والد صاحب نے اس کے ملحقہ جگہ خریدی، یہ جگہ انہوں نے باقی دو بھائیوں میں برابر کی تقسیم کی، 2011 میں والد صاحبؒ نے ساری عمارت توڑ کر پلازہ تعمیر کروالیا، اب اس میں موجود دو دکانوں پر ہم دو بھائی اپنا کاروبار کر رہے جبکہ باقی تمام دکانوں کا کرایہ والد صاحب کے کہنے پر اور سب بھائیوں کی رضامندی سے میں اکھٹا کر کےوالد صاحب کو دیتا رہا،2018 میں ابو کے کہنے پر اس کرایہ میں سے میں نے 25 لاکھ روپے اپنی ذاتی جائیداد کی خریداری میں استعمال کئے، (اسی طرح دوسرے بہن بھائیوں کو بھی والد صاحب نے اس کرائے میں سے جائیداد خریدنے کے لیے رقم دی) کچھ عرصے بعد ابو مجھ سے اس رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگے، میں نے ابو کو یہ کہا کہ ابو جی آپ نے جیسے اور اپنی اولاد کو دیے ہیں ویسے ہی مجھے دیے ہیں، آپ مجھ سے ان پیسوں کا مطالبہ نہ کرو، ابو نے کہا کہ" اچھا ٹھیک ہے باقی کرایہ تو مجھے دو مجھے ضرورت ہے" باقی کرایہ کی کل رقم 40 لاکھ روپے تقریباً بنتی تھی ، جس میں سے 10 لاکھ روپے میں نے ابو کو نقد ادا کردیے تھے،اور باقی 30 لاکھ کا ان کو کہا کہ میں نے دوسرے بھائی کے ساتھ مل کر جگہ خرید لی ہے،ابھی میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔
والد صاحب ؒ نےاپنی زندگی میں سب اولاد کو تقسیم کر کے قبضہ دے دیا تھا، لیکن ان کا یہ کہنا تھا کہ جب تک میں حیات ہوں تم سب اپنی جائیداد کا کرایہ مجھے دیا کرو۔
اب سوال یہ ہے کہ جو 25 لاکھ روپے میں نے ابو کے کہنے سے اپنی جائیدا خریدنے میں استعمال کیے اور وہ 30 لاکھ روپے جو کرایہ کی مد میں میرے پاس تھے اور میں نے بھائی کے ساتھ مل کر ذاتی جائیداد میں شامل کیے۔ کیا ان دونوں رقموں کو والد صاحب کی وراثت میں شمار کریں گے یا اس کرایہ کی رقم کو ان بھائیوں کو ملکیت کے تناسب سے دی جائے گی یا اور جو بھی شرعاً حکم ہو اس سے مطلع فرمائیں، جزاک اللہ خیراً
جواب: ۱) سوال میں بیان کردہ تفصیل کے مطابق چونکہ آپ کے والد اپنی جائیداد اولاد کے نام کر کے تا حیات ان سے کرایہ وصول کرتے رہے، لہذا ان کی طرف سے ہبہ (گفٹ) کی ہوئی جائیداد کا کرایہ وصول کرنے سے، اولاد کا اس جائیداد پر قبضہ تام نہیں ہوا تھا، اس لیے وہ جائیداد شرعاً آپ کے والد صاحب کی ملکیت میں برقرار رہی تھی، پھر اسی سبب سے کرائے کی مد میں جمع شدہ رقم بھی انہی کی ملکیت تھی، لہذا وہ جائیداد اور اس کا کرایہ دونوں ان کی وفات کے بعد ان کے ترکہ میں شمار ہوں گے۔
۲) آپ کے بیان کے مطابق کرایہ کی مد میں جمع شدہ رقم میں پچیس لاکھ روپے آپ نے ذاتی جائیداد کی خریداری میں صرف کیے، بعد میں جب اس کا مطالبہ والد صاحب نے کیا تو، آپ کے کہنے پر انہوں نے چھوڑ دیے (معاف کر دیےتھے) اگر اس بات کے گواہ موجود ہیں، تو یہ رقم آپ کے والد صاحب کی طرف سے آپ کو ہبہ (گفٹ) تھی۔
اور جو بقیہ چالیس لاکھ روپے کا آپ کے والد صاحب نے مطالبہ کیا تھا، جس میں سے بقول آپ کے، آپ نے دس لاکھ روپے ادا کر دیے تھے، بقیہ تیس لاکھ روپے آپ کے ذمے تھے، جو آپ کے والد صاحب کے ترکہ میں شمار ہوکر ورثاء میں تقسیم ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (کتاب الھبة، 687/5، ط: سعید)
"الہبۃ تملیک العین مجانا، أي بلا عوض".
شرح المجلۃ لسلیم رستم باز: (رقم المادة: 833)
"الہبۃ تملیک مال لآخر بلا عوض، أي بلا شرط عوض".
و فیہ أیضا: (رقم المادة: 837)
"تنعقد الہبۃ بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل؛ لأنہا من التبرعات، والتبرع لا یتم إلا بالقبض".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی