سوال:
مفتی صاحب ! زندگی میں جو نمازیں قضاء ہو گئی ہیں، اس کی قضاء کے بارے میں فرمادیں۔
جواب: اگر کسی شخص کی نمازیں قضاء ہوگئی ہوں تو خوب سوچ سمجھ کر ایک صحیح تخمینہ اور اندازا لگالینا چاہیے اور اس کے مطابق اپنی فوت شدہ نمازیں ادا کرنی چاہیے، یہاں تک کہ اس کو یقین ہوجائے کہ اب میرے ذمہ کوئی قضاء نماز باقی نہیں ہے، مثلاً ایک شخص چودہ یا پندرہ سال کی عمر میں بالغ ہوا، اور اس نے پانچ چھ سال تک نماز نہیں پڑھی، یا کبھی پڑھی اور کبھی نہیں پڑھی اور یہ مدت اس شخص کے غالب گمان میں مثلاً پانچ سال کی ہوئی، تو اس شخص کو اپنے غالب گمان کے مطابق اتنے ہی سالوں کی نماز ادا کرنا ضروری ہوگا۔
واضح رہے کہ صرف فرض اور وتر کی قضاء کرنی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح: (ص: 157، ط: دار الکتب العلمیة)
من لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء
حاشیة الشلبي علی تبیین الحقائق: (468/1، ط: سعید)
{فرع} وفي الحاوي لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقضي حتى يستيقن
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی