سوال:
مفتی صاحب ! میری بھابھی کو گھر سے گئے تقریباً دو سال سے زائد ہو چکے ہیں، اس دوران ان سے تین بار رجوع کیا گیا ہے، ایک بار فون پر، ایک بار گھر جا کر اور ایک بار ہمارے کچھ بڑے گئے تھے، جس پر انہوں نے ہمارے لوگوں سے کہا کہ میں اس جہنم میں نہیں جاؤں گی، تو کیا ان کا جہنم کہنا ان کے نکاح کو ختم کر دے گا؟
یہ بھی بتائیں کہ جتنے دنوں سے وہ وہاں اپنی مرضی سے رہ رہی ہیں، تو کیا ان کو ان دنوں کا نان و نفقہ دیا جائے گا یا صرف حق مہر اور عدت کی مدت کا نان و نفقہ دیا جائے گا؟
نیز لڑکے کی طرف سے تین بار رجوع کرنے پر بھی ان کی طرف سے اب تک کوئی جواب نہیں آیا ہے، تو کیا رجوع نہ ہونے کے بعد طلاق واقع ہو گئی؟
جواب: 1۔ بیوی کے یہ کہنے سے کہ "میں اس جہنم میں نہیں جاؤں گی" نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بلکہ یہ نکاح برقرار رہے گا، اور آپ کی بھابھی بدستور آپ کے بھائی کے نکاح میں ہیں۔
2۔ اگر آپ کے بھائی ان کو مناسب جائز حقوق دے کر واپس بلانا چاہتے ہیں، اس کے باوجود وہ بغیر کسی وجہ شرعی کے واپس نہیں آتیں، تو آپ کے بھائی پر ان کا نان و نفقہ لازم نہیں ہے، البتہ مہر بہرحال لازم ہوگا۔
3۔ آپ کے بھائی کے کئی بار واپس بلانے کے باوجود اگر لڑکی والوں کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں آیا، پھر بھی جب تک لڑکا خود زبان سے طلاق کے الفاظ ادا نہیں کرے گا، اس وقت تک کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مجمع الانھر: (باب النفقۃ، 179/2- 180، ط: مکتبہ عباس أحمد الباز مکہ مکرمہ)
ولا نفقۃ لناشزۃ أي عاصیۃ مادامت علی تلک الحالۃ، ثم وصفہا خرجت من بیتہ بغیر حق … وفي القہستاني: فمن النواشز ما إذا منعت لاستیفاء المہر بعد ما سلمتہا کما قالا ولیست بناشزۃ عندہ الخ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی