سوال:
بندہ فیکٹری میں کام کرتا ہے، وہاں پر سال کے بعد 5 فیصد بونس دیا جاتا ہے اور اس 5 فیصد بونس کو فیکٹری والے بینک وغیرہ میں لگادیتے ہیں اور پھر چند ماہ بعد اس بونس کو مزدووں کے درمیان تقسیم کردیا جاتا ہے، کمپنی والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں اتنی رقم اور بینک میں رکھنے کی وجہ سے اس رقم میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور تمام تر مزدوروں کو بمع بینک کے منافع کے تقسیم کردیا جاتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اب ان مزدوروں کے لیے اس منافع والی رقم کو استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ بونس ملازم کے قبضہ میں آنے سے پہلے محکمہ والے جو بھی تصرف اس میں کریں، یہ ان کی ذاتی رقم میں تصرف شمار ہوتا ہے، لہٰذا محکمہ والے اگر سود پر یہ رقم دیتے ہیں تو سودی معاملہ کا گناہ بھی انہی کو ہوگا، ملازم کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا ملازم کو بونس رقم کے ساتھ اگر رقم بھی ملتی ہے تو اس کے لیے یہ سود نہیں ہے، البتہ بونس سے زائد رقم نہ لینے میں احتیاط ہے، بشرطیکہ جبری طور پر رکھوایا گیا ہو۔ ہاں ! اگر ملازم کو اختیار تھا، پھر بھی ملازم نے رکھوایا تو اس صورت میں بونس پر نفع لینا جائز نہ ہوگا۔
فتاویٰ عبادالرحمن میں ہے: سودی معاملہ تو محکمہ والوں نے بینک سے کیا ہے، ملازم کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے، رقم کی نسبت اگرچہ ملازم کی طرف ہوتی ہے، لیکن اس کے قبضے میں آنے سے پہلے شرعاً وہ اس رقم کا مالک قرار نہیں پارہا، اس لیے ملازم کے حق میں اس اضافی رقم کا حکم سود کا نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
صحیح مسلم: (227/2)
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء.
شرح المجلۃ: (654/1، ط: مکتبۃ حبیبیہ)
کل یتصرف فی ملکہ کیف شاء۔
رد المحتار: (69/2، ط: دار الفکر)
(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة
الاشباہ و النظائر: (226/1، ط: دار الکتب العلمیة)
كل قرض جر نفعا حرام
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی