عنوان: زندگی اور مرنے کے بعد اولاد میں میراث کی تقسیم(4601-No)

سوال: مفتی صاحب ! ہم پانچ بھائی بہن ہیں (چار بھائی اور ایک بہن) اور ہمارے والدین حیات ہیں، ہمارے پاس کچھ رقم آئی ہے، دو بھائی بہن کو بھی اس کا حصہ دینے کے، جب کہ دو بھائی نہ دینے کے حق میں ہیں، آپ رہنمائی فرمائیں کہ اس رقم کو آپس میں تقسیم کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
اور کیا یہ بات درست ہے کہ اپنی زندگی میں اگر والدین بچوں کے درمیان جائیداد تقسیم کریں، تو سب کو برابر دینا ہو گا اور اگر ان کی وفات کے بعد جائیداد تقسیم ہو ،تو بہن کو بھائی کے مقابلے میں آدھا دیا جائے گا؟

جواب: صورتِ مسئولہ میں اگر والد یہ رقم اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہوں، تو زندگی میں تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائیداد میں سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے، تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے، اتنا ہی بیٹی کو دے، نہ کسی کو محروم کرے، اور نہ ہی بلا وجہ کمی بیشی کرے، البتہ اگر اولاد میں سے کسی کو معقول وجہ (مثلاً: اولاد میں سے کسی کی مالی حالت کمزور ہونے، زیادہ خدمت گزار ہونے، علم دین میں مشغول ہونے، یا کسی اور فضیلت کی وجہ) سے زیادہ دیتا ہے، اور اس سے دوسرے بچوں کو محروم کرنا یا نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو، تو شرعاً گناہ گار نہیں ہوگا۔
اگر والد یہ رقم زندگی میں تقسیم نہیں کرے، تو انتقال کے بعد تمام شرعی ورثاء میں شریعت کے مطابق اس طرح تقسیم ہوگی کہ مرحوم کی بیوہ کو کل مال کا آٹھواں (1/8) حصہ اور بقیہ تمام حصے بیٹے اور بیٹیوں میں اس طرح تقسیم ہونگے کہ بیٹی کو بیٹے کے مقابلہ میں آدھا حصہ ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْن....الخ

مشکوٰۃ المصابیح: (باب العطایا، 261/1، ط: قدیمی)
'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔

رد المحتار: (کتاب الوقف، 444/4، ط: سعید)
" أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة: أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية، ولو كنت مؤثراً أحداً لآثرت النساء على الرجال». رواه سعيد في سننه، وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم». فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى. وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا: يكون آثماً في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلاتنصرف الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لايعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اه".

الفتاویٰ التاتارخانیۃ: (463/14، ط: رشیدیة)
و علی جواب المتأخرین لا بأس بأن یعطی من أولاده من کان متأدباً".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 670 Jun 23, 2020
zindagi or marne kay baad olaad mai meeraas ki taqseem , Distribution of inheritance among children during life and after death

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.