سوال:
مفتی صاحب! آپ سے پوچھنا یہ تھا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ فرض نماز ادا کرنے کے بعد لوگ جلدی جلدی صفوں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، اور بعض مرتبہ وہ نمازی کے آگے سے بھی گزر جاتے ہیں، اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟وضاحت فرمادیں
جواب: واضح رہے کہ بغیر سترے کے نمازی کے آگے سے گزرنا شرعا درست نہیں ہے، احادیث میں نمازی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں سخت وعید وارد ہوئی ہے، ترمذی کی حدیث میں ہے کہ "زید بن خالد جہنی نے انہیں ابوجہیم رضی الله عنہ کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان سے یہ پوچھیں کہ انہوں نے مصلی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ تو ابوجہیم رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اگر مصلی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر کیا (گناہ) ہے، تو اس کے لیے مصلی کے آگے سے گزرنے سے چالیس … تک کھڑا رہنا بہتر ہو گا۔ ابونضر سالم کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے چالیس دن کہا، یا چالیس مہینے کہا یا چالیس سال"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (438/1، ط: دار الغرب الاسلامی)
أن زيد بن خالد الجهني، أرسل إلى أبي جهيم يسأله ماذا سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم في المار بين يدي المصلي؟ فقال أبو جهيم: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه، لكان أن يقف أربعين خير له من أن يمر بين يديه. قال أبو النضر: لا أدري قال: أربعين يوما، أو أربعين شهرا، أو أربعين سنة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی