سوال:
مفتی صاحب ! ایک شخص نے وصیت کی کہ اگر میں قربانی سے پہلے فوت ہو گیا، تو میری طرف سے ایک حصہ لے کر تمام ورثاء میں تقسیم کر دینا اور اس نے قربانی کے لیے پیسے بھی دیئے ہوں، تو ایسی صورت میں شریعت کیا کہتی ہے؟
جواب: جس شخص نے مرنے سے پہلے قربانی کی وصیت کی ہو، اور اپنی ملکیت میں اتنا مال چھوڑا ہو کہ اس کی تجہیز و تکفین کے مناسب اخراجات، اور قرضہ جات کی ادائیگی کے بعد، بقیہ مال کے تہائی حصہ (1/3) سے قربانی کی جاسکے، تو اس کی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے، البتہ ورثاء میں گوشت تقسیم کرنے کی وصیت اس کی شرعا معتبر نہیں ہے، بلکہ ایسی قربانی کا گوشت فقراء میں صدقہ کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (باب ماجاء لا وصیۃ لوارث، رقم: 2120)
أبي أمامۃ الباہلي رضي اﷲ عنہ قال: سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول في خطبتہ عام حجۃ الوداع، إن اﷲ تبارک وتعالیٰ قدأعطي کل ذي حق حقہ فلاوصیۃ لوارث
اعلاء السنن: (باب التضحیۃ عن المیت)
من ضحی عن المیت یصنع کما یصنع في أضحیۃ نفسہ من التصدق والأکل والأجر للمیت، والملک للذابح، قال الصدر: والمختار أنہ إن بأمر المیت لا یأکل منہا وإلا یأکل۔
السراجی: (ص: 3)
تتعلق بترکۃ المیت حقوق أربعۃ مرتبۃ، ثم تنفذ وصایاہ من ثلث ما بقي بعد الدین۔
الفتاوی الخانیة علی ھامش الھندیة: (248/3، ط: زکریا)
ولو ضحی عن میت من مال نفسہ بغیر أمر المیت جاز، ولہ أن یتناول منہ، ولا یلزمہ أن یتصدق بہ؛ لأنہا لم تصر ملکا للمیت بل الذبح حصل علی ملکہ، ولہذا لو علی الذابح أضحیۃ سقطت عنہ، وإن ضحی عن میت من مال المیت بأمر المیت یلزمہ التصدق بلحمہ ولا یتناول منہ؛ لأن الأضحیۃ تقع عن المیت
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی