سوال:
مفتی صاحب ! ہم سرکاری ادارے میں ملازم ہیں، اس میں ڈی ایس پی فنڈ کے نام سے پیسے کاٹے جاتے ہیں جس پر سالانہ سود (interest) بھی ملتا ہے، کچھ رقم یعنی تین سو روپے گورنمنٹ کی پالیسی کے تحت کٹوانی ضروری ہے، تاہم کچھ لوگ اسے تین سو سے بڑھاتے بھی ہیں، کیا یہ بڑھانا یا کم از کم تین سو روپے کٹوانا جو ضروری ہے، جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ ڈی ایس پی فنڈ کا حکم وہی ہے جو پراویڈنٹ فنڈ کا ہے، یعنی اگر کٹوتی جبرا ہو، تو ملازم کے لیے اصل رقم بمعہ اضافہ لینا جائز ہے، کیونکہ اس صورت میں ملنے والا اضافہ شرعاً سود نہیں ہے، اور اگر کٹوتی اختیاری ہو، تو اس میں ملنے والی اضافی رقم میں چونکہ سود کا شائبہ پایا جاتا ہے، اس لئے اضافی رقم وصول کرنے سے احتیاط کرنا بہتر ہے، البتہ اصل رقم وصول کرنا بہرحال جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تبيين الحقائق: (106/5، ط: المطبعۃ الکبری الامیریۃ)
(والأجرة لا تملك بالعقد بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن منه)"...
”أي لا تملك الأجرة بنفس العقد سواء كانت الأجرة عينا أو دينا، وإنما تملك بالتعجيل أو بشرط التعجيل أو باستيفاء المعقود عليه وهي المنفعة أو بالتمكن من استيفائه بتسليم العين المستأجرة في المدة،"
الجوهرة النيرة: (266/1، ط: المطبعۃ الخیریۃ)
(والأجرة لا تجب بالعقد) أي لا يجب أداؤها؛ لأن العقد ينعقد شيئا فشيئا على حسب حدوث المنافع، والعقد معاوضة، ومن قضية المعاوضة المساواة، وإذا استوفى المنفعة ثبت الملك في الأجرة لتحقق التسوية وكذا إذا شرط التعجيل، أو عجل من غير شرط ولو استأجر دارا سنة بعبد معين ولم يقبضه المؤجر فأعتقه المستأجر قبل مضي المدة صح عتقه وعليه قيمته ولو أعتقه المؤجر لا يصح؛ لأنه لا يملكه بمجرد العقد ولو قبضه المؤجر فأعتقه نفذ عتقه"...
" (قوله: ويستحق بأحد معان ثلاثة إما أن يشترط التعجيل، أو بالتعجيل من غير شرط أو باستيفاء المعقود عليه)"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی