عنوان: نشے کی حالت میں دی ہوئی طلاق کا حکم(4647-No)

سوال: مفتی صاحب ! بیس (20) جون دو ہزار بیس(2020) کی رات میرے شوہر نے گھر آ کر پہلے تو کچھ نا مناسب باتیں کیں اور پھر میرے منع کرنے کے کچھ دیر بعد مجھے بازو سے پکڑ کر طلاق دی اور الفاظ تین بار دہرائے جو یہ تھے:
میں عمر فاروق ولد محمد منشاء، رفعت جہاں تمہیں پہلی طلاق دیتا ہوں، میں عمر فاروق ولد محمد منشاء، رفعت جہاں تمہیں دوسری طلاق دیتا ہوں، میں عمر فاروق ولد محمد منشاء، رفعت جہاں تمہیں تیسری طلاق دیتا ہوں۔
صبح جب میں نے ان سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے سرے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں رات شراب پی کر آیا تھا اور قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ رات دس بجے سے ابھی صبح تک کیا ہوا، مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔
اس تناظر میں رہنمائی فرمائیں کہ اگر ایک شخص یہ کہے کہ مجھے طلاق یاد نہیں، حالانکہ اس نے طلاق دی ہو اور چونکہ بیوی کے کان میں دی ہے تو گواہ بھی صرف بیوی ہی ہو، لیکن بعد میں وہ یہ کہے کہ وہ ہوش میں نہیں تھا، تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟
نیز یہ بھی بتائیں کہ میرے شوہر کا کہنا ہے کہ تین طلاقیں جو ایک وقت میں دی جائیں، تین نہیں ایک ہوتی ہے اور اس طرح طلاق دے کر رجوع کیا جا سکتا ہے، تو کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: واضح رہے کہ شراب پینا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اور گناہ کر کے انسان معذور قرار نہیں پاتا، اس لیے نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعی آپ کو یقین ہے کہ آپ کے شوہر نے نشہ کی حالت میں تین طلاقیں دی ہیں، تو اس صورت میں تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، اور آپ ان کے لیے حرام ہوگئی ہیں۔
تین طلاقیں دینے کی صورت میں عدت کے دوران رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ہے، اور نہ ہی عدت گزرنے کے بعد اس شوہر سے نکاح ہو سکتا ہے، جب تک کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے اور اس کے ساتھ حقوقِ زوجیت ادا نہ کرے، پھر اگر وہ طلاق دے دے یا انتقال کر جائے، تو عدت گزرنے کے بعد طرفین کی رضامندی سے نئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں اسی شخص سے دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقیں، شریعت کی نظر میں تین ہی واقع ہوتی ہیں اور اس کے بعد بیوی اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی ہے۔
یاد رکھیے ! یہ حکم قرآن کریم، احادیث نبویہ سے ثابت ہے، جمہور صحابہ و تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع بھی اسی پر ہے، اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالی کا بالاتفاق یہی مسلک ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 230)
فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ"....الخ

تفسیر روح المعانی: (البقرة، الایة: 230)
"فإن طلقہا‘‘ متعلقا بقولہ سبحانہ ’’الطلاق مرتان‘‘ .… فلاتحل لہ من بعد‘‘ أي من بعد ذلک التطلیق ’’حتی تنکح زوجاًغیرہ‘‘ أي تتزوج زوجا غیرہ ویجامعہا".

صحیح البخاری: (باب من اجاز طلاق الثلاث، رقم الحدیث: 5260، 412/3، ط: دار الکتب العلمیة)
حدثنا سعيد بن عفير قال حدثني الليث قال حدثني عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني عروة بن الزبير أن عائشة أخبرته أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إن رفاعة طلقني فبت طلاقي وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي وإنما معه مثل الهدبة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة لا حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته

سنن أبي داود: (باب فی اللعان، رقم الحدیث: 2250)
"عن سہل بن سعد قال :فطلقہا ثلاث تطلیقات عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فأنفذہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الخ“۔

ترجمه:
”حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور آپ نے اُن کو نافذ کردیا“۔

شرح النووی: (70/10، ط: دار احیاء التراث العربی)
وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد وجماهير العلماء من السلف والخلف يقع الثلاث

الفتاوی التاتارخانیة: (187/3، ط: قدیمی)
وطلاق السکران واقع اذا سکر من الخمر أو النبیذ وھو مذھب اصحابنا۔

فتح القدیر: (کتاب الطلاق، 469/3، ط: دار الفکر)
ذہب جمہور الصحابة والتابعین ومن بعدہم من أئمة المسلمین الی أنہ یقع ثلاثاً".

ترجمه:
”جمہور حضرات صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ مسلمین کا یہی مسلک ہے کہ تین طلاقیں تین ہی واقع ہونگی“۔

عمدة القاری: (باب من جوز طلاق الثلاث، 233/20، ط: دار احیاء التراث العربي)
”ومذہب جماہیر العلماء من التابعین ومن بعدہم منہم: الأوزاعي والنخعي والثوري، و أبو حنیفة وأصحابہ، ومالک و أصحابہ، والشافعي وأصحابہ، وأحمد و أصحابہ، و اسحاق و أبو ثور و أبو عبید وآخرون کثیرون علی أن من طلق امرأتہ ثلاثاً، وقعن؛ولکنہ یأثم“.

مجلۃ البحوث الإسلامیۃ: (القرار، الطلاق الثلاث بلفظ واحد، 165/3)
القرار : بعد الاطلاع علی البحث المقدم من الأمانۃ العامۃ لہیئۃ کبار العلماء والمعد من قبل اللجنۃ الدائمۃ للبحوث والإفتاء في موضوع الطلاق الثلاث بلفظ واحد ، وبعد دراسۃ المسئلۃ وتداول الرأي واستعراض الأقوال التي قیلت فیہا ومناقشۃ ما علی کل قول من إیراد توصل المجلس بأکثریتہ إلی اختیار القول بوقوع الطلاق الثلاث بلفظ واحد ثلاثا وذلک لأمور أہمہا ما یلي : أولا : لقولہ تعالی : {یا أیہا النبي إذا طلقتم النسآء فطلّقوہنّ لعدّتہنّ} إلی قولہ تعالی : {وتلک حدود اللّٰہ ومن یتعدّ حدود اللّٰہ فقد ظلم نفسہ لا تدري لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امرًا} ۔ فإن الطلاق الذي شرعہ اللّٰہ ہو ما یتعقبہ عدۃ وما کان صاحبہ مخیرًا بین الإمساک بمعروف ، والتسریح بإحسان ، وہذا منتف في إیقاع الثلاث في العدۃ قبل الرجعۃ فلم یکن طلاقا للعدۃ ، وفي فحوی ہذہ الآیۃ دلالۃ علی وقوع الطلاق لغیر العدۃ إذا لو لم یقع لم یکن ظالمًا لنفسہ بإیقاعہ لغیر العدۃ۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2716 Jun 26, 2020
nashay ki halat mai di hoi talaaq ka hukum, Ruling on divorce granted / given while in the state of intoxication / intoxicated

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.