سوال:
حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اونٹ کو پہلے باندھ دوں، پھر اللہ پر توکل کروں یا چھوڑ دوں، پھر توکل کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے باندھ دو، پھر توکل کرو۔ سند کے لحاظ سے مندرجہ بالا حدیث کیسی ہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا اس حدیث کو آگے بیان کر سکتے ہیں؟
جواب: حدثنا ابو حفص عمرو بن علي، حدثنا يحيى بن سعيد القطان، حدثنا المغيرة بن ابي قرة السدوسي، قال: سمعت انس بن مالك يقول: قال رجل: يا رسول الله، اعقلها واتوكل او اطلقها واتوكل قال: " اعقلها وتوكل "،
قال عمرو بن علي: قال يحيى: وهذا عندي حديث منكر، قال ابو عيسى: وهذا حديث غريب من حديث انس لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وقد روي عن عمرو بن امية الضمري، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا.
(سنن الترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ، رقم الحدیث: 2517)
ترجمہ:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم! کیا میں اونٹ کو پہلے باندھ لوں، پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کروں، یا اسے چھوڑ دوں پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کروں؟ آپ نے فرمایا: ”اسے باندھو، پھر توکل کرو“
مذکورہ بالا روایت کو امام یحی بن سعید بن القطان نے حدیث منکر یعنی ضعیف قرار دیا ہے، اس کی وجہ ترمذی شریف کی شرح "تحفۃ الأحوذی" (جلد 7/ 186، ابواب صفۃ القیامۃ، رقم الحدیث: 2517) میں یہ تحریر کی گئی ہے کہ امام یحییٰ بن سعید بن القطان کے نزدیک یہ حدیث شاید اس لیے منکر ہوگی کہ اس حدیث کی سند میں راوی "مغیرۃ بن القرۃ" ہیں، جو ان کے نزدیک مجہول راوی ہیں، اس لیے یہ حدیث منکر (سندا ضعیف) ہے۔
لیکن امام ترمذی رحمہ اللّٰہ تعالٰی نے اس حدیث کے شاھد کی طرف خود ہی اشارہ فرمایا ہے:
"وقد روي عن عمرو بن امية الضمري، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا".
ترجمہ:
اور آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اس مضمون کی روایت حضرت عمرو بن أمیۃ الضمری رضی اللّٰہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
محدثین کے نزدیک اگر کسی حدیث کی سند میں ضعف ہو، تو اس حدیث کے شاھد کے ذریعے وہ ضعف ختم ہو جاتا ہے اور وہ "حدیث حسن" بن جاتی ہے۔
لہذا سنن الترمذی کی حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ کی روایت کو "حدیث حسن" کہا جا سکتا ہے، اور اسے بیان کیا جا سکتا ہے۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی