سوال:
مفتی صاحب ! میری خالہ کی چار بیٹیاں ہیں اور وہ اپنی چاروں بیٹیوں کی طرف سے قربانی کا ایک حصہ نفلی طور پر لینا چاہتی ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر استطاعت ہو تو زندہ یا مردہ رشتہ داروں کی طرف سے قربانی کرنا جائز، بلکہ مستحسن ہے، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر فرد کے لیے الگ الگ حصہ رکھنا ضروری ہے، ایک حصہ ایک سے زیادہ افراد کے لیے کافی نہیں ہے، البتہ اپنی طرف سے ایک نفلی قربانی کرکے اس کا ثواب ایک سے زائد افراد کو بخش سکتے ہیں، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری امت کی طرف سے ایک مینڈھا قربان کیا تھا۔
(مسلم شریف، مشکوٰۃ ص:127، ط: قدیمی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (304/5، ط: دار الفکر)
يجب أن يعلم أن الشاة لا تجزئ إلا عن واحد، وإن كانت عظيمة، والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى، والتقدير بالسبع يمنع الزيادة، ولا يمنع النقصان، كذا في الخلاصة.... ولو أرادوا القربة - الأضحية أو غيرها من القرب - أجزأهم سواء كانت القربة واجبة أو تطوعا أو وجب على البعض دون البعض، وسواء اتفقت جهات القربة أو اختلفت بأن أراد بعضهم الأضحية وبعضهم جزاء الصيد وبعضهم هدي الإحصار وبعضهم كفارة عن شيء أصابه في إحرامه وبعضهم هدي التطوع وبعضهم دم المتعة أو القران وهذا قول أصحابنا الثلاثة رحمهم الله تعالى
فتاوی محمودیہ: (408/17)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی