سوال:
مفتی صاحب !
1 بیوی، 2 بیٹیوں، 2 بھائی اور 1 بہن میں وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟
جواب: مرحوم کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی کے لیے جائز وصیت کی ہو، تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیدادِ منقولہ و غیر منقولہ کو چوبیس (24) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو تین (3)، دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو آٹھ (8)، دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک بھائی کو دو (2) اور بہن کو ایک (1) حصہ ملے گا۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں:
بیوہ کو % 12.5 فیصد
ہر ایک بیٹی کو % 33.33 فیصد
ہر ایک بھائی کو % 8.33 فیصد
بہن کو % 4.16 فیصد ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ ....الخ
و قوله تعالی: (النساء، الایة: 12)
فإن کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم....الخ
السنن الکبری للبیہقی: (باب میراث إلاخوۃ و الأخوات لأب و أم أو لأب، رقم الحدیث: 12581، 288/9، ط: دار الفکر)
عن زیدبن ثابت فإن کان معہن أخ ذکر فإنہ لافریضۃ لأحد من الأخوات، ویبدأ بمن شرکہم من أہل الفرائض فیعطون فرائضہم فما فضل بعد ذلک کان بین الإخوۃ والأخوات للأب والأم للذکر مثل حظ الأنثیین۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی