سوال:
اس حدیث کی تصدیق فرمادیں: "حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انصار کا ایک آدمی تھا، جسے لوگ بیع میں دھوکہ دیتے تھے، اس کی زبان میں لکنت بھی تھی، اس نے نبی کریم ﷺ سے اپنے ساتھ ہونے والے دھوکہ کی شکایت کی، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم بیع کیا کرو، تو تم یوں کہہ لیا کرو کہ اس بیع میں کوئی دھوکہ نہیں ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ واللہ! یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے اب بھی میں اسے بیع کرتے ہوئے لاخلابۃ کہتے ہوئے سن رہا ہوں اور اس کی زبان اڑ رہی ہے"۔(بخاری و مسلم)(مسند احمد:ج، سوم، حدیث، 1645)
فوائد: یہ لفظ بے شمار اللہ والوں سے منقول ہے، لڑکے یا لڑکی کا کہیں رشتہ کرنا ہے، شادی کی خریداری کرنی ہے، قربانی کے لیے جانور خریدنا ہے، کاروبار میں لین دین حتی کہ آپ بازار سے کوئی سودا سلف ہی خریدنے جا رہے ہیں تو منہ میں اللھم لا خلابة پڑھتے ہوئے جائیں، پھر اس جادوئی لفظ کا کمال خود دیکھیے، آپ کو سب سے بہترین چیز آپ کے معیار اور قیمت کے مطابق ملے گی۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ روایت بخاری اور مسلم شریف میں موجود ہے،ذیل میں اس کا ترجمہ اور صحیح مطلب بیان کیا جاتا ہے:
ترجمہ:ایک شخص ( حبان بن منقذ رضی اللہ عنہ ) نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ وہ اکثر خرید و فروخت میں دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: "جب تم خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کرو تو اس وقت یہ کہہ دیا کرو کہ ”(دین میں ) فریب (کے لیے گنجائش) نہیں ہے۔“(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2117)(۱)
واضح رہے کہ حدیث شریف کا یہ مطلب نہیں ہے، جو سوال میں بیان کیا گیا ہے، بلکہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے اس حدیث شریف کے کئی مطالب بیان کیے ہیں، جن میں سے پسندیدہ مطلب یہ ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی "فقل لا خلابة" (تم کہہ دیا کرو کہ فریب نہیں ہے) کا مطلب یہ ہے کہ آپﷺنے اس شخص کو حکم دیا تھا کہ جب تم کسی شخص سے خرید و فروخت کا معاملہ کرو، تو پہلے اس کو آگاہ کردیا کرو کہ دیکھو بھائی! مجھے خرید و فروخت کے معاملات سے زیادہ واقفیت نہیں ہے، تم کوئی ایسی چیز اختیار نہ کرنا، جس سے میں دھوکہ کھا جاؤں اور مجھے کوئی نقصان پہنچ جائے، اور چونکہ ہمارے دین میں اس بات کی قطعا اجازت نہیں ہے کہ کسی بھی شخص کو دھوکہ و فریب میں مبتلا کیا جائے، اس لیے مہربانی کرکے تم میرے ساتھ کوئی دھوکہ و فریب نہ کرنا۔
چنانچہ یہ اس پُرخیر دور کی بات ہے، جہاں عام طور پر لوگ دیانتداری، امانت اور پرہیزگاری کے حامل تھے، مخلوق خدا کی بھلائی کا جذبہ تھا، ہر مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لیے وہی بات پسند کرتا تھا، جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا تھا، خصوصاً اگر کوئی کسی کو آگاہ کردیتا کہ میرے ساتھ ایسا برتاؤ نہ کرنا، جس سے مجھے نقصان و تکلیف ہو، تو وہ اس کا بطورِ خاص خیال رکھتا کہ میں کسی نادانستگی میں بھی اس کو نقصان پہنچنے کا ذریعہ نہ بن جاؤں، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس بات کی تعلیم فرمائی کہ اگر وہ اپنے بارے میں اس طرح آگاہ کردیا کرے گا، تو لوگ اس کی خیر خواہی بہر صورت ملحوظ رکھیں گے۔(۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(۱)صحیح البخاري:(3/65،رقم الحدیث: 2117،ط:دارطوق النجاۃ)
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: أن رجلا ذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، أنه يخدع في البيوع، فقال: «إذا بايعت فقل لا خلابة.وأخرجه مسلم في ’’صحيحه‘‘(3/1165)( 1533)
(۲)مرقاة المفاتیح: (6/39، ط: دار الکتب العلمیة)
والمقصود التنبيه على أنه ليس من أهل البصارة فيحترز صاحبه عن مظان الغبن ويرى له كما يرى لنفسه، وكان الناس أحقاء برعاية الإخوان في ذلك الزمان۔۔۔۔۔۔قال التوربشتي: لقنه النبي - صلى الله عليه وسلم - هذا القول ليتلفظ به عند البيع لينبه به صاحبه على أنه ليس من ذوي البصائر في معرفة السلع ومقادير القيمة فيها، فيمتنع بذلك عن مظان الغبن ويرى له كما يرى لنفسه، وكان الناس في ذلك الزمان أحقاء بأن يعينوا أخاهم المسلم وينظروا له أكثر مما ينظرون لأنفسهم. قال الطيبي: وهذا هو الوجه ولا خلابة لنفي الجنس وخبره محذوف على الحجاز أي: لا خداع في الدين لأن الدين النصيحة۔ (متفق عليه)
کذا في مظاہرحق :(3/60)، ط: دارالاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی