سوال:
مفتی صاحب ! ایک شخص کے والد کا انتقال ہو گیا ہے، وہ اپنے والد کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنا چاہتا ہے، رہنمائی فرمائیں کہ ایک نماز اور روزہ کا فدیہ کتنا بنتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ کسی شخص کی زندگی میں اس کے ذمہ قضا نمازیں باقی رہ گئی ہوں اور اس نے ان قضا نمازوں کا فدیہ دینے کی وصیت بھی نہ کی ہو، تو ورثاء پر ان نمازوں کا فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، البتہ ورثاء اگر اپنے مرحوم کی آخرت کے حساب سے سبکدوشی کے لیے، از خود اس کی طرف سے اس کی نمازوں کا فدیہ ادا کردیں، تو فدیہ ادا ہوجائے گا اور ورثاء کا اپنے مرحوم کے لیے ایسا کرنا اس پر بڑا احسان ہوگا۔
ایک روزے اور ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہوتا ہے اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں، تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے چھ صدقہ فطر کے برابر ہوں گے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا آٹا یا اس کی قیمت ہے۔
لہذا کسی مستحق کو فی نماز کے حساب سے پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دینے سے نمازوں کا فدیہ ادا ہوجائے گا۔
اللہ تعالٰی کی رحمت سے قوی امید ہے کہ مرحوم سے آخرت میں مؤاخذہ نہیں فرمائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (72/2)
"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر)".
الھندیة: (کتاب الصلاۃ، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت)
"إذا مات الرجل وعلیہ صلوات فائتہ (إلی قولہ) و إن لم یوص لورثتہ وتبرع بعض الورثۃ یجوز الخ".
مراقی الفلاح: (کتاب الصلاۃ، فصل في اسقاط الصلوۃ و الصوم)
"وکذا یخرج لصلوۃ کل وقت من فرض من الیوم واللیلۃ حتی الوتر؛ لأنہ فرض عملي عند الإمام-إلی قولہ- والصحیح أنہ کل صلوۃ فدتہ ہي نصف صاع من بر (إلی قولہ) أو قیمتہ وہي أفضل لتنوع حاجات الفقیر الخ".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی