عنوان: زندگی میں جائیداد کی تقسیم کا طریقہ(4735-No)

سوال: مفتی صاحب ! میرے گھر کا رقبہ تقریبا اٹھائیس (28) مرلہ ہے، ہم دو میاں بیوی، چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، میں یہ گھر اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں، شرعاً یہ جائیداد ہمارے درمیان کس تناسب سے تقسیم ہوگی؟ اٹھارہ (18) مرلہ میں کمرے بنے ہوئے ہیں، جن میں دو بھائی رہتے ہیں، جبکہ باقی خالی زمین ہے۔

جواب: اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو جائیداد میں سے کچھ دینا یا تقسیم کرناچاہے تو یہ ہبہ کہلاتا ہے، اور ''ہبہ'' کے لیے ضروری شرط یہ ہے کہ صرف زبانی طور پر کہنا نہ پایا گیا ہو، بلکہ عملی طور پر موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا گیا ہے) کو مکمل قبضہ دیدیا گیا ہو، اگر جائیداد صرف زبانی طور پر ہبہ کی ہو، اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار نہ دیا ہو تو وہ جائیداد بدستور دینے والے کی ملکیت میں رہے گی۔
زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائیداد میں سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے، تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ جائیداد اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے، نہ کسی کو محروم کرے، اور نہ ہی بلا وجہ کمی بیشی کرے، البتہ اگر وہ اولاد میں سے کسی کو معقول وجہ (مثلا اولاد میں سے کسی کی مالی حالت کمزور ہونے، زیادہ خدمت گزار ہونے، علم دین میں مشغول ہونے، یا کسی اور وجہ فضیلت کی وجہ) سے زیادہ دیتا ہے، اور اس سے دوسرے بچوں کو محروم کرنا یا نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو تو شرعاً وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مصنف عبد الرزاق: (باب الھبات، 107/9)
عن إبراہیم قال: الہبۃ لا تجوز حتی تقبض، والصدقۃ تجوز قبل أن تقبض۔

مشکوٰۃ المصابیح: (باب العطایا، 261/1، ط: قدیمی)
'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔

الدر المختار: (کتاب الھبة، 569/4)
وتتم الہبۃ بالقبض الکامل۔

رد المحتار: (کتاب الوقف، 444/4، ط: سعید)
" أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة: أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية، ولو كنت مؤثراً أحداً لآثرت النساء على الرجال». رواه سعيد في سننه، وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم». فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى. وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا: يكون آثماً في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلاتنصرف الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لايعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اه".

الفتاویٰ التاتارخانیۃ: (463/14، ط: رشیدیة)
و علی جواب المتأخرین لا بأس بأن یعطی من أولاده من کان متأدباً".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 710 Jul 04, 2020
zindagi mai jaidaad ki taqseem ka tariqa, Method / way / Mode of distribution of property during life

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.