سوال:
مفتی صاحب ! موجودہ حالات میں تنخواہوں کی جبری کٹوتی پر آپ کی رہنمائی درکار ہے۔
کرونا کی وبا کے باعث معاشی حالات خراب ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے متعدد کمپنیز نے اپنے اسٹاف سے اجازت لیے بغیر ان کی تنخواہیں چالیس (40) فیصد تک کاٹ دی ہیں اور جس کانٹریکٹ پر اسٹاف کو رکھا گیا تھا، اس کو سراسر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور کرونا کی وجہ سے خراب معاشی حالات کو بہانہ بناتے ہوئے اسٹاف کو کہا گیا ہے کہ اگر کم تنخواہ پر کام کرنا ہے تو کریں، ورنہ کہیں اور نوکری کرلیں، اس مجبوری میں جہاں ویسے ہی نوکری کے مواقع کم ہو گئے ہیں، اسٹاف کو مجبوراً کم تنخواہ پر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔
اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ آیا اس وقت جب کمپنی اسٹاف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو پامال کرتے ہوئے معاہدے سے کم تنخواہ دے رہی ہے، تو کیا اسٹاف اپنا نقصان پورا کرنے کے لیے فارغ اوقات میں پارٹ ٹائم کسی اور جگہ کچھ کام کرسکتا ہے؟
واضح رہے کہ کمپنی سے کیے گئے معاہدہ کی رو سے پارٹ ٹائم کام کرنا منع ہے، لیکن کم تنخواہ دے کر کمپنی نے خود بھی معاہدہ توڑا ہے، تو رہنمائی فرمائیں کہ اوپر بیان کی گئی صورتحال کے مطابق کیا پارٹ ٹائم کام کرنا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر ملازم وقت کی بنیاد (time base) پر کام کرتا ہے، تو اس کو شرعا "اجیر خاص" کہا جاتا ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ وہ کمپنی کی طرف سے مقررہ وقت پر اپنے آپ کو حاضر کرنے کا پابند ہوتا ہے، اسی بنیاد پر وہ تنخواہ کا بھی حق دار ہوتا ہے، لہذا کمپنی کو اپنے سابقہ معاہدے کے مطابق ملازم کو اس کی پوری اجرت دینی ہوگی، پھر اگر ملازم کمپنی کی نئی پالیسی کے مطابق کام کرنے پر تیار ہو جاتا ہے، تو یہ نیا معاہدہ ہے، اس معاہدہ کی وجہ سے ملازم پر ضروری ہے کہ وہ متعینہ وقت کمپنی کے کام میں صرف کرے اور طے شدہ معاہدے کی پاسداری کرے، لہذا کمپنی کے اوقات میں اپنا ذاتی کام کرنا خیانت کے زمرے میں آئے گا۔
ہاں! اگر کمپنی کے ذمہ داران سے اجازت لے کر ذاتی کام کیا جائے، تو اس کی اجازت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (کتاب الاجارة، 70/6، ط: سعید)
"(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولايشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لايؤدي نفلاً، وعليه الفتوى".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی