سوال:
مفتی صاحب ! ایک شخص مکان بنوانا چاہ رہا ہے، لیکن اس کے پاس پیسے نہیں ہیں اور وہ بینک سے قرض لینا بھی نہیں چاہتا، ایک جاننے والے نے اس سے کہا کہ میں آپ کا مکان تعمیر کروا دیتا ہوں، لیکن جتنا بھی خرچ ہوگا، اس سے دس فیصد اضافی رقم واپس لوں گا، کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟ اور اگر جائز نہیں ہے، تو متبادل کوئی جائز صورت بتادیں.
جواب: صورت مسؤلہ میں مکان کی تعمیر پر جس قدر خرچہ ہوگا، خرچہ کرنے والے کو اسی کے بقدر وصول کرنے کا حق ہے، اس پر مزید دس پرسنٹ اضافی وصول کرنا سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
تاہم جواز کی ایک صورت یہ ممکن ہے کہ آپ کے دوست کا جاننے والا اس طرح معاملہ کرے کہ اپنے نام سے اس کی ضرورت کا تعمیراتی سامان مارکیٹ سے خرید کر اس پر قبضہ کرلے، پھر وہی سامان اس کو کچھ نفع رکھ کر قسطوں پر فروخت کردے، اور قسط میں تاخیر کی صورت میں کوئی سود وغیرہ نہ لے، تو یہ صورت شرعاً جائز ہوگی، کیونکہ اب یہ صورت "بیع مرابحہ" کے حکم میں ہوگئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
اعلاء السنن: (566/14، ط: دار الکتب العلمیة)
عن علي -رضي اﷲ عنہ- مرفوعا کل قرض جر منفعۃ فہو ربا - وقال الموفق: کل قرض شرط فیہ الزیادۃ فہو حرام بلا خلاف۔
شرح المجلۃ: (رقم المادۃ: 245، 127/1، ط: اتحاد، دیوبند)
البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح … یلزم أن تکون المدۃ معلومۃ في البیع بالتأجیل والتقسیط۔
بحوث قضایا فقھیۃ معاصرۃ: (ص: 7)
أما الأئمۃ الأربعۃ وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع المؤجّل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع مؤجّل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی