سوال:
مفتی صاحب ! ایک مسلمان گھرانے کی لڑکی نے گھر سے فرار ہو کر ایک عیسائی لڑکے کے ساتھ گرجا گھر میں جا کر شادی کر لی اور گرجا گھر (عیسائیوں کا عبادت خانہ) میں خود کو اور اپنے گھر والوں کو عیسائی ظاہر کیا، نیز گرجا گھر کے شادی سرٹیفکیٹ میں خود کو اور اپنے والدین کو عیسائی لکھا اور لکھوایا، اس شادی کروانے میں دو چار مسلمان بھی عملاً شامل تھے۔
اس ضمن میں چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
(1) ایسی لڑکی کا کیا حکم ہے؟
(2) ایسی شادی کروانے میں جو مسلمان خود بھی شریک تھے، ان کا کیا حکم ہے؟
(3) کیا ایسی لڑکی والدین کی جائیداد میں وراثت کا حق رکھتی ہے؟
(4) ایک عاقل بالغ لڑکی گھر سے فرار ہو کر اس قسم کی شادی کرے، تو کیا اس کا گناہ اور وبال والدین پر بھی آئے گا؟
جواب: (1) واضح رہے کہ مسلمان عورت کے لیے کسی بھی غیر مسلم مرد (چاہے وہ عیسائی ہی کیوں نہ ہو) کے ساتھ نکاح کرنا بالاتفاق حرام ہے، اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
(2)جن مسلمانوں نے اس نکاح کا شرعی حکم معلوم ہونے کے باوجود اس شادی میں شرکت کی، وہ شریعت کی نظرمیں حرام کام کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے سخت مجرم اور گناہگار ہوئے، یہاں تک کہ اگر وہ لوگ اس شادی کا شرعی حکم معلوم ہونے کے باوجود حلال سمجھ کر شریک ہوئے، تو اس صورت میں (نعوذ باللہ) ان کا گناہ کفر تک پہنچ جائے گا۔
(3) کسی مسلمان کا دیدہ دانستہ اپنے آپ کی نسبت صراحۃً کافر مذہب کی طرف کرنا سراسر موجبِ کفر ہے، اگر کوئی ایسا کرلے، تو ایسے شخص پر واجب ہے کہ فوراً صدقِ دل توبہ کر کے تجدیدِ ایمان کرلے، اور آئندہ ایسا کرنے سے مکمل پرہیز کرے، لہذا اگر لڑکی نے صراحۃً اپنے عیسائی ہونے کا دعویٰ کیا، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے، تو اس دعویٰ کرنے سے دائرہ اسلام سے خارج ہو گئی ہے، اور کافر کو مسلمانوں کی میراث سے کچھ نہیں ملتا ہے، لہذا ایسی لڑکی کو اپنے مسلمان رشتہ داروں کی میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا۔
(4) اگر والدین اُس کے اِس عمل پر راضی تھے، تو اس گناہ کا وبال والدین پر بھی آئے گا، اور اگر والدین راضی نہیں تھے، تو والدین کے اوپر اس گناہ کا وبال نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الفاطر، الایة: 18)
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ ....الخ
تفسیر الطبری: (711/3)
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ} [البقرة: ٢٢١] اخْتَلَفَ أَهْلُ التَّأْوِيلِ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: هَلْ نَزَلَتْ مُرَادًا بِهَا كُلُّ مُشْرِكَةٍ، أَمْ مُرَادًا بِحُكْمِهَا بَعْضَ الْمُشْرِكَاتِ دُونَ بَعْضٍ؟ وَهَلْ نُسِخَ مِنْهَا بَعْدَ وُجُوبِ الْحُكْمِ بِهَا شَيْءٌ أَمْ لَا؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: نَزَلَتْ مُرَادًا بِهَا تَحْرِيمُ نِكَاحِ كُلِّ مُشْرِكَةٍ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ مِنْ أَيِّ أَجْنَاسِ الشِّرْكِ كَانَتْ عَابِدَةَ وَثَنٍ أَوْ كَانَتْ يَهُودِيَّةً أَوْ نَصْرَانِيَّةً أَوْ مَجُوسِيَّةً أَوْ مِنْ غَيْرِهِمْ مِنْ أَصْنَافِ الشِّرْكِ، ثُمَّ نُسِخَ تَحْرِيمُ نِكَاحِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِقَوْلِهِ: {يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ} [المائدة: ٤] إِلَى {وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ} [المائدة: ٥]
صحیح البخاری: (باب لا يرث المسلم الكافر و لا الكافر المسلم، رقم الحدیث: 6764، 272/4، ط: دار الکتب العلمیة)
حدثنا أبو عاصم عن ابن جريج عن ابن شهاب عن علي بن حسين عن عمرو بن عثمان عن أسامة بن زيد رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لا يرث المسلم الكافر ولا الكافر المسلم۔
بدائع الصنائع: (کتاب النکاح، 445/3)
ومنہا : إسلام الرجل إذا کانت المرأۃ مسلمۃ فلا یجوز إنکاح المؤمنۃ الکافر لقولہ تعالی : {ولا تنکحوا المشرکین حتی یؤمنوا} - ولأن في إنکاح المؤمنۃ الکافر خوف وقوع المؤمنۃ في الکفر ، لأن الزوج یدعوہا إلی دینہ، والنساء في العادات یتبعن الرجال فیما یؤثروا من الأفعال ویقلدونہم في الدین إلیہ ، وقعت الإشارۃفي آخر الآیۃ بقولہ عز وجل : {اولٓئک یدعون إلی النار} ۔ لأنہم یدعون المؤمنات إلی الکفر ، والدعاء إلی الکفر دعاء إلی النار ، لأن الکفر یوجب النار ، فکان نکاح الکافر المسلمۃ سببًا داعیًا إلی الحرام فکان حرامًا۔
الھندیۃ: (279/2- 280، ط: رشیدیة)
مسلم قال: انا ملحد، یکفر.... مسلم رای نصرانیۃ سمینۃ فتمنی ان یکون ھو نصرانیا حتی یتزوجھا یکفر۔ کذا فی المحیط۔
فتاوی عثمانی: (74/1، ط: معارف القرآن)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی