سوال:
مفتی صاحب ! ابھی پڑھائی چل رہی ہے، لیکن جنسی تقاضے حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں، والدین کو نکاح کے لیے کہا، لیکن وہ تیار نہیں ہیں، رہنمائی فرمائیں کہ ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیے اور والدین نکاح کے لیے کیسے تیار ہونگے؟
جواب:
مذکورہ حالات میں والدین کو چاہیے کہ جلد از جلد مناسب رشتہ دیکھ کر آپ کی شادی کروادیں، بصورت دیگر آپ سے کوئی گناہ سرزد ہونے کی صورت میں گناہ کا عذاب آپ کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی ہوگا، اور جب تک شادی نہیں ہوجاتی، تب تک آپ مندرجہ ذیل باتوں پر عمل کرتے رہیں:
(1) نظروں کی حفاظت کریں۔
(2) نامحرم اور اجبنی عورتوں کے ساتھ اختلاط سے بچیں۔
(3) روزے رکھیں، کیونکہ روزہ رکھنے سے شہوت مغلوب ہوتی ہے۔
(4) ایسی غذائیں استعمال نہ کریں، جس سے شہوت میں اضافہ ہوتا ہو۔
(5) غلط ماحول اور خیالات سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کریں، اپنے آپ کو مصروف رکھیں، حتی الامکان تنہائی سے احتراز کریں، اور جہاں تنہائی ناگزیر ہو، وہاں کم سے کم وقت گزارنے کی عادت اور ترتیب بنائیں۔
(6) کسی بزرگ سے بیعت کرنے یا تبلیغی جماعت میں کچھ وقت لگانے کی کوشش کریں اور اپنا اٹھنا بیٹھنا نیک لوگوں کے ساتھ رکھیں۔
امید ہے ان چیزوں پر عمل کرنے کی وجہ سے اللہ پاک آپ کی شیطان کے مکر و فریب سے حفاظت فرمائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوۃ المصابیح: (باب الولی فی النکاح و استئذان المرأة، رقم الحدیث: 3138، 191/3، ط: مکتبة البشری)
عن أبی سعید وابن عباس رضی الله عنھما قالا: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من ولد لہ ولد فلیحسن اسمہ وأدبہ، فاذا بلغ فلیزوجہ، فان بلغ ولم یزوجہ فأصاب اثمًا فانما اثمہ علٰی أبیہ۔“
صحیح البخاری: (باب من لم یستطع الباءۃ فلیصم، رقم الحدیث: 5066، 363/3، ط: دار الکتب العلمیة)
عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: کنا مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم شبابًا لا نجدُ شیئًا،فقال لنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یا معشر الشباب! من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج؛ فإنہ أغض للبصر وأحصن للفَرَجِ، ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم؛ فإنہ لہ وجاء۔
رد المحتار: (مطلب کثیرًا ما یتساھل في إطلاق المستحب علی السنة، 79/3، ط: سعید)
فإن تیقن الزنا إلا بہ فرض ’’نہایۃ‘‘ أي: بأن کان لا یمکنہ الاحتراز عن الزنا إلا بہ؛ لأن ما لا یتوصل إلی ترک الحرام إلا بہ یکون فرضاً، وہٰذا إن ملک المہر والنفقۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی