عنوان: صلہ رحمی کرنے کا حکم(485-No)

سوال: مفتی صاحب ! اگر مرحوم والد نے اپنے کسی رشتہ دار سے دھوکہ کھانے کے بعد یہ کہا ہو کہ اب ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھیں گے، کیونکہ انہوں نے پہلے بھی ان سے دھوکہ کھایا تھا۔
اب اگر ان کے ہاں اپنے کسی رشتہ دار سے شادی ہو اور وہ یہ چاہتے ہوں کہ والدہ اور بچے شادی میں شریک ہوں، والدہ مرحوم والد کی یادوں اور ان کو پہنچے دکھ کی وجہ سے نہ جانا چاہیں اور دل سے چاہیں کہ بچے بھی نہ جائیں تو کیا ایسی صورت میں بوڑھی والدہ کا دل دکھا کر شادی میں صرف اس لیے جائیں کہ رشتہ داروں سے قطع تعلقی درست نہیں، کیا والدہ سے بڑھ کر بھی رشتہ دار ہوتے ہیں؟
وہ تو بس اپنے مرحوم شوہر کو دیے دکھ درد کی وجہ سے نہیں جانا چاہتیں اور بچے انہیں منانا چاہتے ہیں، والدہ بچوں کے اصرار پے شاید چلی تو جائیں، لیکن مجبور ہو کر دل سے نہیں، کیونکہ اب شوہر تو ہے نہیں اور بچوں کا ہی سہارا ہے، کیا بچوں کا ایسا کرنا درست ہے کہ والدہ کو ٹینشن دیں اور انہیں ڈیپریشن میں ڈالیں؟

جواب: اسلام نے ہمیں رشتہ داروں کے ساتھ احسان اور اچھے برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، رشتہ ناطہ کو توڑدینا اور رشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ کرنا اللہ کے نزدیک حد درجہ ناپسندیدہ ہے۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا يدخلُ الجنةَ قاطعُ رحمٍ
(صحيح مسلم:2556)
ترجمہ: جنت میں رشتہ توڑنے اور کاٹنے والا نہ جائے گا۔
اسی طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
 "لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ
(المعجم الکبیر للطبرانی:185/18،ط:مکتبہ ابن تیمیہ،قاہرہ)
ترجمہ:" اللہ خالق كى نافرمانى ميں كسى مخلوق كى اطاعت و فرمانبردارى نہيں كى جا سكتى "
اس ليے والدہ كو حق نہيں، وہ اولاد كو اپنے رشتہ داروں سے شرعى حدود اور مصلحت كے اندر رہتے ہوئے ملنے اور صلہ رحمى كرنے سے روكیں، لہذا  آپ اپنی والدہ کو رشتہ داروں سے صلہ رحمى كرنے كى ترغيب دیں اور کوئی ایسی صورت اپنائیں کہ آپکی والدہ بھی خوش رہیں اور رشتے داروں سے ناطہ بھی نہ ٹوٹے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

المعجم الکبیر للطبرانی: (185/18، ط: مکتبۃ ابن تیمیۃ)
عن محمد بن سيرين، إن الحكم بن عمرو الغفاري، وعمران بن حصين التقيا فقال أحدهما للآخر: أتذكر يوم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا طاعة لأحد في معصية الله» قال: الله أكبر

سنن الدارمی: (915/2، ط: دار المغنی)
عن عبد الله بن سلام قال: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة استشرفه الناس فقالوا: قدم رسول الله، قدم رسول الله، قال: فخرجت فيمن خرج، فلما رأيت وجهه، عرفت أن وجهه ليس بوجه كذاب، وكان أول ما سمعته يقول: «يا أيها الناس، أفشوا السلام، وأطعموا الطعام، وصلوا الأرحام، وصلوا والناس نيام، تدخلوا الجنة بسلام»

صحیح مسلم: (1981/4، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن الزهري، أن محمد بن جبير بن مطعم، أخبره أن أباه، أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يدخل الجنة قاطع رحم»

شعب الایمان: (417/10، ط: دار السلفیۃ)
عن عقبة بن عامر الجهني، قال: كنت أمشي ذات يوم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا عقبة بن عامر، صل من قطعك، وأعط من حرمك واعف عمن ظلمك "

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 493 Jan 09, 2019
Silah Rehmi karnay ka hukm, Sila rehmi, Sila-e-Rehmi, Sila rehm, qata rehmi, Husn-e-Sulook, Husn-e-Salook, , Ruling on doing merciful act, act of mercy, being merciful, Teachings on mercy, how to be merciful, merciful reward, reward of mercy, Act of mercy

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.