سوال:
حضرت! جس شخص پر قربانی واجب ہے، اس کے لیے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد بال اور ناخن وغیرہ کاٹنے کا کیا حکم ہے؟ اور اگر کسی شخص نے ناخن کاٹ لیے تو کیا وہ گناہ گار ہوگا؟حضرت! جس شخص پر قربانی واجب ہے، اس کے لیے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد بال اور ناخن وغیرہ کاٹنے کا کیا حکم ہے؟ اور اگر کسی شخص نے ناخن کاٹ لیے تو کیا وہ گناہ گار ہوگا؟
جواب: قربانی کرنے والے کے لیے یکم ذی الحجہ سے قربانی کا جانور ذبح ہونے تک ناخن اور بال نہ کاٹنا مستحب ہے۔
"مستحب" کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ کام کر لیا جائے تو اس پر ثواب ملتا ہے اور اگر نہ کیا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، لہذا اگر کوئی شخص ان دنوں میں بال یا ناخن کاٹ لے تو اس کو ملامت اور طعن و تشنیع کرنا صحیح نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (کتاب الاضاحی، باب نہي من دخل علیہ عشر ذي الحجۃ وھو مرید التضحیۃ أن یأخذ من شعرہ أو أظفارہ شیئًا، حدیث نمبر:1977، ط: داراحیاء التراث العربی)
عن أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا ترفعہ قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا دخل العشرُ وعندہ أضحیۃ یرید أن یضحي فلا یأخذنَّ شعرًا ولا یقلمن ظُفرًا۔
وعنہا أیضًا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا رأیتم ہلال ذي الحجۃ وأراد أحدکم أن یضحي فلیُمسک عن شعرہ وأظفارہ۔
ردالمحتار: (124/1، ط: دارالفکر)
فالأولى ما في التحرير أن ما واظب عليه مع ترك ما بلا عذر سنة، وما لم يواظب عليه مندوب ومستحب وإن لم يفعله بعد ما رغب فيه اه بحر
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی