سوال:
مفتی صاحب! چند روز پہلے میرا بیوی سے جھگڑا ہوا، اور کافی دیر تک ہم جھگڑتے رہے، میری بیوی کافی جذباتی ہے، جھگڑے کے دوران اس نے کہا کہ "میں کافر ہوں، مسلمان نہیں ہوں، نماز نہیں پڑھوں گی"، میں نے اسے سمجھایا کہ لڑائی اپنی جگہ، لیکن ایسے غلط الفاظ منہ سے نہیں نکالنے چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ الفاظ کہنے سے میری بیوی کافر ہوگئی ہے، اور ہمارا نکاح ٹوٹ چکا ہے، اگر ٹوٹ چکا ہے، تو کیا تجدیدِ نکاح کی ضرورت ہے، اور دوبارہ مہر ادا کرنا ضروری ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ جو شخص یہ کہے کہ "میں کافر ہوں"،تو وہ ایمان سے خارج ہوجاتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں چونکہ آپ کی بیوی نے "میں کافر ہوں" الفاظ کہے تھے، لہذا بیوی ایمان سے اسی وقت خارج ہوچکی ہے، اور آپ دونوں کا نکاح ٹوٹ چکا ہے، لہذا بیوی کو چاہیے کہ مذکورہ الفاظ پر توبہ و استغفار کرے، اپنے ایمان کی تجدید کرے، اور نکاح کی تجدید کرے، اگر حج کیا تھا، تو وہ باطل ہوگیا ہے، اب دوبارہ حج کرنا فرض ہوگا، بشرطیکہ استطاعت ہو۔
تجدیدِ نکاح یہ ہے کہ میاں بیوی دو عاقل بالغ گواہوں کی موجودگی میں نیا مہر مقرر کرکے ایجاب و قبول کرلیں، نکاح دوبارہ منعقد ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح الفقه الاکبر: (ص: 226، ط: مجتبائی، دھلی)
وفي الجواهر، من قال لو كان كذا غدا والا كفر، كفر من ساعته. وفي المحيط: من قال فأنا كافر أو فاكفر، یعنی فی جزاء الشرطية المبتدأة أو مطلقا قال أبو القاسم هو كافر من ساعته....الخ
رد المحتار: (246/4، ط: دار الفکر)
وفي شرح الوهبانية للشرنبلالي: ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل و النکاح۔۔۔الخ
و فیہ ایضا: (251/4، ط: دار الفکر)
(وما أدى منها فيه يبطل، ولا يقضي) من العبادات (إلا الحج) لأنه بالردة صار كالكافر الأصلي، فإذا أسلم وهو غني فعليه الحج فقط.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی