سوال:
میں اس وقت بینک اسلامی میں ملازمت کرتا ہوں، اس سے پہلے میں میزان بینک میں ملازمت کرتا تھا، جب میں میزان بینک میں ملازمت کرتا تھا تو میری تنخواہ کم تھی، لیکن مجھے کبھی ہاتھ کی تنگی نہیں ہوئی، لیکن جب میں نے جنوری 2020ء میں اچھی تنخواہ پر بینک اسلامی جوائن کرنے کا ارادہ کیا تو میں نے سوچا كہ آج كے بعد میں ہر ماہ اپنی تنخواہ کا تیس (30) فیصد اللہ کی راہ میں دوں گا تو میں نے جنوری2020ء سے اپنی تنخواہ کا تیس فیصد اللہ کی راہ میں دینا شروع کر دیا، لیکن جب سے میں نے یہ عمل شروع کیا ہے، تب سے میرے پیسوں میں وہ برکت نہیں رہی جو پہلے ہوتی تھی، لہذا رہنمائی فرمائیں کہ ایسے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ میں ایسی کیا غلطی کر رہا ہوں جس کی وجہ سے میرے پیسوں کی برکت ختم ہو رہی ہے؟
جواب: دنیا میں ہر امیر وغریب اور نیک و بد کو اللہ تعالی کے قانونِ قدرت کے تحت دکھوں، غموں اور پریشانیوں سے کسی نہ کسی شکل میں ضرور واسطہ پڑتا ہے، کیونکہ یہ دنیا مصیبتوں، پریشانیوں اور غموں کا گھر ہے، البتہ یہ پریشانیاں دو قسم کی ہوتی ہے:
۱)پہلی قسم کی پریشانیاں وہ ہوتی ہیں جوکہ اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندے کے لیے تنبیہ ہوتی ہے، تاکہ وہ نافرمانی سے باز آکر اللہ تعالی کی طرف رجوع کر لے، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْأَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْن(سورةالسجدة، الآیة: 21)
ترجمہ: اوراس بڑے عذاب سے پہلے بھی ہم اُنہیں کم درجہ کے عذاب کا مزہ بھی ضرور چکھائیں گے، شاید یہ باز آجائیں ۔
۲)دوسری قسم کی پریشانیاں وہ ہوتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نافرمانی پر پکڑ یا تنبیہ نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے، جو درجات کی بلندی یا گناہوں کے مٹنے کا ذریعہ بنتی ہے اور یہ پریشانی اور تکلیف درحقیقت اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہوتی ہے کہ اس چھوٹی سی تکلیف کے سبب اللہ تعالیٰ اپنے کمزور بندے کو آخرت کے بڑے عذاب سے بچالیتے ہیں یا رفع درجات کی صورت میں آخرت کی بڑی نعمت عطا فرمادیتے ہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ "انبیاء علیہم السلام پر زیادہ آزمائشیں آئیں، پھر درجہ بہ درجہ جو ان سے قریب ہوتا ہے، اس پر بھی آزمائشیں زیادہ آئیں گی" مگر خدانخواستہ انبیاء علیہم السلام پر آنے والی یہ تکالیف اور آزمائشیں کوئی سزا نہیں تھیں، بلکہ ان کے درجات کو مزید بلند کرنا مقصد تھا۔
اس لیے پریشانیاں اورمصیبتیں آنے پر انسان کو اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں انفرادی یا اجتماعی طور پر اللہ تعالی کے احکامات میں کوتاہی تو نہیں ہورہی؟ اگر کوئی کوتاہی نہیں ہے تو پھر اپنے دل کو درجات کی بلندی کی تسلّی دے کر ان پریشانیوں اور مصبتوں پر صبر کرنا چاہیے اور اگر کہیں کوتاہی ہے تو اس پر نادم ہوکر اللہ تعالی سے اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگنی چاہیے اور گناہ چھوڑ کر اپنے اعمال کی اصلاح کرنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (العنکبوت، الایة: 2)
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَo
و قولہ تعالی: (السجدة، الایة: 21)
وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْأَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنo
سنن الترمذی: (179/4، ط: دار الغرب الاسلامی)
عن مصعب بن سعد، عن أبيه، قال: قلت: يا رسول الله، أي الناس أشد بلاء؟ قال: الأنبياء ثم الأمثل فالأمثل، فيبتلى الرجل على حسب دينه، فإن كان دينه صلبا اشتد بلاؤه، وإن كان في دينه رقة ابتلي على حسب دينه، فما يبرح البلاء بالعبد حتى يتركه يمشي على الأرض ما عليه خطيئة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی