عنوان: سونے کی ادھار خرید وفروخت اور وعدہ بیع کی صورت کا شرعی حکم (4987-No)

سوال: مفتی صاحب ! ہم چھوٹے بھائی کی شادی کی غرض سے تین تولہ سونا خریدنا چاہتے ہیں، سونے کی قیمت جس رفتار سے اڑان بھرتی نظر آرہی ہے، اس لحاظ سے مجموعی طور پر سونا خریدنے کی سکت مشکل نظر آرہی ہے، کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہماری اگست کی کمیٹی دسمبر تک موخر ہوگئی ہے، سنار یہ کہہ رہا ہے کہ فی الحال کسی طرح ایک تولہ سونا موجودہ قیمت پر لے کر قیمت بک کروالو، جب پیسے آئینگے، تو باقی سونا بھی اسی قیمت پر لے لینا، تو کیا یہ وعدہ بیع ہے اور اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
بصورت دیگر کوئی متبادل بھی بتادیں۔

جواب: صورت مسئولہ میں سنار کا یہ کہنا کہ " فی الحال ایک تولہ کسی طرح موجودہ ریٹ پر لے کر ریٹ بک کروا لو، جب پیسے آئیں گے، تو باقی بھی اسی ریٹ پر لے لینا" یہ صورت بظاہر وعدہ بیع کی ہے ، اور اس صورت میں سودا حتمی تب ہوگا، جب باقی پیسے دیکر سونا لیا جائے گا، لہذا یہ معاملہ جائز ہے۔
واضح رہے کہ اگر فریقین اس طرح ریٹ بک کرنے سے خرید فروخت کا معاملے حتمی سمجھ کر کر رہے ہوں٬ (وعدہ کے طور پر نہ کررہے ہوں) تو اس صورت میں ضروری ہوگا کہ اسی مجلس میں سونے یا نقدی میں سے کسی ایک چیز پر قبضہ کرلیں٬ دونوں چیزیں ادھار نہیں ہوسکتی٬ اور جو چیز ادھار ہو، اس کی ادائیگی کی مدت بھی طے کی جائے٬ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ سونا بازاری قیمت (مارکیٹ ویلیو) سے زیادہ پر فروخت نہ کیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

شرح معاني الآثار: (رقم الحدیث: 5554، 51/4، ط: عالم الکتب)
حدثنا أبو بكرة، وابن مرزوق، قالا: ثنا أبو عاصم، قال أبو بكرة في حديثه: أخبرنا موسى بن عبيدة، وقال ابن مرزوق في حديثه عن موسى بن عبيدة الزيدي، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الكالئ بالكالئ يعني: الدين بالدين.

رد المحتار: (180/5، ط: دار الفکر)
سئل الحانوتي عن بيع الذهب بالفلوس نسيئة. فأجاب: بأنه يجوز إذا قبض أحد البدلين لما في البزازية لو اشترى مائة فلس بدرهم يكفي التقابض من أحد الجانبين قال: ومثله ما لو باع فضة أو ذهبا بفلوس كما في البحر عن المحيط.

الھندیة: (224/3، ط: دار الفکر)
الفلوس بمنزلة الدراهم إذا جعلت ثمنا لا تتعين في العقد، وإن عينت ولا ينفسخ العقد بهلاكها كذا في الحاوي.... ولو باع تبر فضة بفلوس بغير أعيانها وتفرقا قبل أن يتقابضا فهو جائز، وإن لم يكن التبر عنده لم يجز كذا في المحيط.

کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 60/1504

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 4113 Aug 06, 2020
sone / soney ki udhaar khareed o farookht or / aur wada bee ki sorat ka shari hukum / hukm, Sharia ruling of buying and selling gold on loan and the form of promise sale

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.