عنوان: آٹھ سال سے ضداً ازدواجی تعلقات قائم نہ رکھنے والے شوہر اور اس کے اھل خانہ کا حکم(500-No)

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام ایسے شخص کے بارے میں کہ جس نے آٹھ سال سے بیوی کے ساتھ ضداً ازدواجی تعلقات قائم نہیں رکھا، حالانکہ اسی کمرے میں سوتا ہے، لیکن بیوی سے نہ ازدواجی تعلقات رکھتا ہے اور نہ ہی بیوی کو طلاق و خلع دے کر علیحدہ کررہا ہے اور بیوی بیچاری پریشان کن زندگی گزار رہی ہے۔ شریعت میں ایسے شخص کے متعلق کیا حکم ہے؟ کیا حقوق زوجیت ادا نہ کرنے کی وجہ سے عورت کو فسخ نکاح کرانے کا حق ہے؟ یہ بھی واضح رہے کہ ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔ (۲) جن جن لوگوں کو یہ معلوم ہے، لیکن وہ پھر بھی لڑکے کو نہ سمجھائیں تو ایسے لوگوں سے متعلق شریعت کیا حکم دیتی ہے؟ (۳) کیا ایسے لوگوں سے ان کی ظلم کی وجہ سے اور ان کی اصلاح کی خاطر برادری والے بائیکاٹ کرسکتے ہیں؟

جواب: واضح ہو کہ شوہر کی طرف سے ازدواجی تعلق قائم نہ رکھنا اس وقت فسخ نکاح کا سبب بنتا ہے، جبکہ شوہر نے شادی کے بعد سے اب تک ایک مرتبہ بھی عنین (نامرد) ہونے کی وجہ سے حقوقِ زوجیت ادا نہ کیا ہو، لیکن اگر ایک مرتبہ بھی حقوقِ زوجیت ادا کیا ہو، تو پھر صرف ازدواجی تعلق قائم نہ رکھنے سے عورت کو فسخِ نکاح کرانے کا حق حاصل نہیں ہوتا، البتہ شوہر ضداً حقوقِ زوجیت ادا نہ کرنے کی وجہ سے سخت گنہگار ہوگا، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں شوہر ایک مرتبہ حقوقِ زوجیت ادا کرچکا ہے، جس کے نتیجے میں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ اب مزید حقوق زوجیت ادا نہ کرنے کی وجہ سے عورت کو فسخِ نکاح کا حق حاصل نہیں ہے، لیکن شوہر آٹھ سال سے حقوقِ زوجیت ادا نہ کرنے کی وجہ سے سخت گنہگار ہوگا۔
(۲) جو لوگ جانتے ہوئے لڑکے کو نہیں سمجھارہے، وہ سب بھی اس گناہ میں شریک ہونے کی وجہ سے گنہگار ہیں۔
(۳) احباب و اقارب کو چاہیے کہ انہیں سمجھائیں، اگر وہ باز نہ آئے، تو ایسے لوگوں سے دوستانہ تعلقات نہ رکھنے کی بھی گنجائش ہے۔ اگر کوئی شرعی قاضی ہو، تو وہ ایسے لوگوں کو تعزیراً سزا بھی دے سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (334/2، ط: دار الکتب العلمیة)
ومنها المعاشرة بالمعروف، وأنه مندوب إليه، ومستحب قال الله تعالى: {وعاشروهن بالمعروف} [النساء: 19] قيل هي المعاشرة بالفضل والإحسان قولا وفعلا وخلقا قال النبي: - صلى الله عليه وسلم - «خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي» ، وقيل المعاشرة بالمعروف هي أن يعاملها بما لو فعل بك مثل ذلك لم تنكره بل تعرفه، وتقبله وترضى به، وكذلك من جانبها هي مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان باللسان، واللطف في الكلام، والقول المعروف الذي يطيب به نفس الزوج، وقيل في، قوله تعالى {ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف} [البقرة: 228] أن الذي عليهن من حيث الفضل والإحسان هو أن يحسن إلى أزواجهن بالبر باللسان، والقول بالمعروف، والله عز وجل أعلم.
ويكره للزوج أن يعزل عن امرأته الحرة بغير رضاها؛ لأن الوطء عن إنزال سبب لحصول الولد، ولها في الولد حق، وبالعزل يفوت الولد، فكأنه سببا لفوات حقها، وإن كان العزل برضاها لا يكره؛ لأنها رضيت بفوات حقها، ولما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «اعزلوهن أو لا تعزلوهن إن الله تعالى إذا أراد خلق نسمة، فهو خالقها» إلا أن العزل حال عدم الرضا صار مخصوصا.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 540 Jan 09, 2019
Aath Saal say ziddan Azdawaji Taaluqaat qaim na rakhnay walay shauhar aur us kay ehl e khana ka hukm, Azwaji, ath, Taluqat, rakhne, wale, shohar, Ehl-e-Khana, Ruling on a husband who has not been in a marital relationship for eight years with his family being stubborn, ego, The right of a woman to annul a marriage, Being stubborn, Recalcitrate, Repungance

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.