resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ایک بکری کی قربانی پورے گھر کی طرف سے کافی ہونے والی روایت کی وضاحت (5017-No)

سوال: مندرجہ ذیل حدیث کے بارے میں رہنمائی فرمادیں: "حضرت عطاء بن یسار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ لوگوں کی قربانیاں کیسی ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ کے زمانے میں آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا تو اسے سارے گھر والے کھاتے اور لوگوں کو کھلاتے تھے، پھر لوگ فخر و مباہات کرنے لگے تو معاملہ ایسا ہو گیا جو تم دیکھ رہے ہو"۔(ابن ماجہ: حدیث نمبر، 3147)

جواب:
اس حدیث کی تشریح میں امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"قربانی مالدار پر واجب ہے، اور اس زمانے میں عام طور پر صرف گھر کا سربراہ ہی مالدار ہوتا تھا، اور قربانی بھی وہی کرتا تھا، لیکن گھر کے دیگر افراد چونکہ قربانی کرنے میں مدد کرتے تھے، اور قربانی کا گوشت پورے گھر والے کھاتے تھے، لہذا قربانی کی نسبت سب کی طرف مجازا کی گئی ہے۔"
اس تشریح سے معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا روایت سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اگر کسی گھر میں صاحب نصاب ایک سے زیادہ ہوں، تو ایک بکرے کی قربانی پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوجائے گی، بلکہ ایسی صورت میں ہر صاحب نصاب پر الگ قربانی واجب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تکملة البحر الرائق: (319/8، ط: رشیدیة)
وقوله " شاة، أو سبع بدنة " بيان للقدر الواجب والقياس أن لا يجوز إلا البدنة كلها إلا عن واحد لأن الإراقة قربة لا تتجزأ إلا أنا تركناه بالأثر وهو ما روي عن جابر - رضي الله تعالى عنه - قال «نحرنا مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - البقرة عن سبعة والبدنة عن سبعة» ولا نص في الشاة فبقي على أصل القياس وتجوز عن ستة، أو خمسة، أو أربعة، أو ثلاثة ذكره في الأصل لأنه لما جاز عن سبعة فما دونها أولى، ولا يجوز عن ثمانية لعدم النقل فيه وكذا إذا كان نصيب أحدهم أقل من سبع بدنة لا يجوز عن الكل لأنه بعضه إذا خرج عن كونه قربة خرج كله ويجوز عن اثنين نصفا في الأصح.

المسوی علی ھامش المصفی للامام الدہلوی: (بحواله فتاوی محمودیة: 306/26، ط: دار الاشاعت)
وتاویل الحدیث عندھم ان الاضحیة لاتجب الا علی غنی، ولم یکن الغنی فی ذلک الزمان غالبا، الا صاحب البیت، ونسبت الی اھل بیتہ علی معنی انھم یساعدون فی التضحیة ویاکلون لحمھا وینتفعونھا۔

الفقہ الاسلامی و ادلته: (2724/4، ط: رشیدیة)
المطلب الثالث - قدر الحيوان المضحى أو مايجزئ عنه:
اتفق الفقهاء على أن الشاة والمعز لا تجوز أضحيتهما إلا عن واحد، وتجزئ البدنة أو البقرة عن سبعة أشخاص، لحديث جابر: «نحرنا مع رسول الله صلّى الله عليه وسلم بالحديبية: البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة» . وفي لفظ مسلم: «خرجنا مع رسول الله صلّى الله عليه وسلم مهلين بالحج، فأمرنا رسول الله صلّى الله عليه وسلم أن نشترك في الإبل، والبقر، كل سبعة منا في بدنة» .
وأجاز الحنابلة أن يذبح الرجل عن أهل بيته شاة واحدة، أو بقرة، أو بدنة، عملاً بما رواه مسلم عن عائشة أن النبي صلّى الله عليه وسلم ضحى بكبش عن محمد وآل محمد، وضحى بكبشين أملحين أقرنين، أحدهما عن محمد وأمته ، وروى ابن ماجه والترمذي وصححه عن أبي أيوب: «كان الرجل في عهد النبي صلّى الله عليه وسلم يضحي بالشاة عنه، وعن أهل بيته، فيأكلون، ويطعمون ... ».

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

aek / one bakre / bakrey ki qurbani pore / porey ghar ki taraf se / sey kaafi hone / honey wali rewayat / rivayat ki wazahat, Explanation of the tradition / hadith regarding the sacrifice of a goat being sufficient for the whole household

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees