سوال:
اگر رات کو کسی کی آنکھ کھل جائے اور وہ موبائل پر لیٹے لیٹے بغیر وضو کے قرآن پاک پڑھنے لگے تو کیا وہ اس بشارت "الذين يذكر ون الله قياما و قعودا و علی جنوبهم"۔۔۔الخ میں داخل ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ مذکورہ آیت "الذین یذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم" میں کھڑے، بیٹھے اور لیٹے یعنی ہر حال میں اللہ تعالی کا ذکر کرنے والوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ لوگ حقیقت میں عقل مند ہیں جو ہر حال میں ذکر الہی سے منسلک رہتے ہیں۔
ذکر الہی سے مراد اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا، ہر کام میں اس کی منشا کا خیال کرنا اور دل و دماغ میں اس کے تصوّر کو مشغول رکھنا ہے۔ مذکورہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ انسان ہر وقت اللہ کی فرمانبرداری میں لگارہے، اور زبان سے ذکر الٰہی کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال سے بھی اطاعت خداوندی کا ثبوت دیتا رہے، چونکہ تلاوت قرآن بھی ذکر اللہ میں شامل ہے، اس لئے تلاوتِ قرآن میں مشغولیت بھی اس آیت کے مفہوم میں شامل ہے۔
یاد رہے کہ قرآن پاک کی تلاوت کے آداب میں سے یہ ہے کہ بیٹھ کر تلاوت کی جائے، البتہ جہاں تک لیٹ کر تلاوت کرنے کا تعلق ہے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن اس دوران ادب کے طور پر پاؤں کو سمیٹ لینا چاہیے۔ نیز اگر موبائل سے تلاوت کی جارہی ہو تو اسکرین کے جس حصے پر قرآن شریف کے الفاظ نظر آرہے ہوں، اس حصہ کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے، البتہ اگر اس طرح تلاوت کی جائےکہ ہاتھ اسکرین پر نظر آنے والے الفاظ کو نہ چھوئے تو ایسی صورت میں بلا وضو تلاوت کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الاعراف، الایۃ: 205)
"واذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَةً وَّدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَo
التفسیر المنیر: (540/2، ط: دار الفکر)
تحت ھذہ الآیۃ: یذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم۔
ثم وصف اللہ تعالی اولی الالباب بانھم یجمعون بین التذکر والتفکیر، یذکرون فی مختلف احوالھم من قیام وقعود واضطجاع لا یقطعون ذکرہ فی جمیع احوالھم بسرائرھم وضمائرھم والسنتھم۔
صحیح مسلم: (باب ذكر الله تعالى في حال الجنابة و غيرها، رقم الحدیث: 117)
عن عائشة رضي الله عنها، قالت: «كان النبي صلي الله عليه وسلم يذكر الله على كل أحيانه».
الھندیة: (5/ 316، ط: رشیدیة)
’’لا بأس بقراء القرآن إذا وضع جنبه علی الأرض، ولکن ینبغي أن یضم رجلیه عند القراءة، کذا في المحیط. لا بأس بالقراء ة مضطجعاً إذا أخرج رأسه من اللحاف؛ لأنه یکون کاللبس، وإلا فلا، کذا في القنیة‘‘.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی