عنوان: قرآنی تعلیمات کے مطابق شیطان کو انسانوں پر کتنا اختیار حاصل ہے؟(5030-No)

سوال: قرآن میں سورۃ الکھف میں ہے کہ وما انسنیہ الا الشیطن". پوچھنا یہ ہے کہ شیطان کو کون سے امور میں اختیار دیا گیا ہے؟

جواب: شیطان کو انسانوں پر کتنا اختیار ہے؟ اس سلسلے میں قرآن وحدیث کے مطالعہ سے جو بات معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ شیطان کو ایسا اختیار بالکل نہیں ہے کہ انسان اس کے سامنے بالکل مجبور و بے بس ہو گیا ہو، بلکہ اس کو صرف اتنا اختیار ہے کہ وہ انسانوں کو برائی کی دعوت دے اورطرح طرح کے برے وسوسے دل میں ڈالے، پھر انسان کے بس میں ہے کہ وہ اپنے اختیار سے اس برائی کو سر انجام دے، لہذا انسان سے آخرت میں جو باز پرس اور جزاو سزا ہوگی، وہ اس کے اسی اختیار کو استعمال کرنے پر ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن شیطان اپنے پیروکاروں سے صاف الفاظ میں کہے گا، جس کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح وارد ہوا ہے:
ترجمہ: اور جب ہر بات کا فیصلہ ہوجائے گا تو شیطان (اپنے ماننے والوں سے) کہے گا: حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو اس کی خلاف ورزی کی۔ اور مجھے تم پر اس سے زیادہ کوئی اختیار حاصل نہیں تھا کہ میں نے تمہیں (اللہ کی نافرمانی کی) دعوت دی تو تم نے میری بات مان لی۔ لہذا اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو۔ نہ تمہاری فریاد پر میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں اور نہ میری فریاد پر تم میری مدد کرسکتے ہو، تم نے اس سے پہلے مجھے اللہ کا جو شریک مان لیا تھا ( آج) میں نے اس کا انکار کردیا ہے جن لوگوں نے یہ ظلم کیا تھا، ان کے حصے میں تو اب دردناک عذاب ہے۔(سورۃ ابراھیم، آیت نمبر: 22)
مذکورہ بالا آیت سے واضح ہو گیا کہ شیطان نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بری کر لیا کہ میں نے تو تمہیں صرف دعوت دی تھی، باقی کام تو تم نے خود سر انجام دیئے، البتہ اس کے وسوسوں کا زیادہ اثر ان لوگوں پر زیادہ ہوتا ہے جو شیطان کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں۔
جو لوگ ایمان والے ہیں اور اللّٰہ تعالٰی پر توکل کرتے ہیں، وہ ہر وقت اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہیں شیطان مردود سے تو ان پر شیطان کی دعوت کا زور نہیں چلتا، ذیل کی آیات میں اسی بات کو بیان کیا گیا ہے:
ترجمہ: چنانچہ جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔ اس کا بس ایسے لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لائے ہیں، اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔اس کا بس تو ان لوگوں پر چلتا ہے، جو اسے دوست بناتے ہیں، اور اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔(سورۃ النحل آیت نمبر98,100)
تفسیر: شیطان سے پناہ مانگنا صرف تلاوت ہی کے ساتھ مخصوص نہیں، ہر نیک کام کے وقت پناہ مانگ لی جائے، تو ان شاء اللہ شیطانی اثرات سے حفاظت رہے گی۔ ( آسان ترجمہ قرآن)
حضرت مفتی شفیع عثمانی صاحبؒ نے تفسیر معارف القرآن میں ان آیات کے ذیل میں تحریر فرمایا: حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمہ تفسیر میں فرمایا کہ انسان کے دشمن دو قسم کے ہیں، ایک خود نوع انسانی میں سے ہے جو نظر آتا ہے، جیسے کفار اور دوسرے جنات میں سے جو نظر نہیں آتا، یعنی شیطان ونافرمان، پہلی قسم کے دشمن کے ساتھ اسلام نے جہاد و قتال کے ذریعے مدافعت کا حکم دیا ہے، مگر دوسری قسم سے بچنے کے لیے صرف اللہ کی پناہ لینا واجب قرار دیا گیا ہے۔
اس آیت میں یہ واضح کر دیا کہ اللہ تعالی نے شیطان کو ایسی قوت نہیں دی کہ وہ کسی بھی انسان کو برائی پر مجبور و بے اختیار کردے، انسان خود اپنے اختیار وقدرت کو غفلت یا کسی غرض نفسانی سے استعمال نہ کرے تو یہ اس کا قصور ہے، اسی لئے فرمایا کہ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے احوال واعمال میں اپنی قوت ارادی کے بجائے اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہیں کہ وہی ہر خیر کی توفیق دینے والا اور ہر شر سے بچانے والا ہے، ایسے لوگوں پر شیطان کا تسلط نہیں ہوتا، ہاں جو اپنے اغراض نفسانی کے سبب شیطان ہی سے دوستی کرتے ہیں، اسی کی باتوں کو پسند کرتے ہیں، اللہ تعالی کے ساتھ غیروں کو شریک ٹھہراتے ہیں، ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے کہ کسی خیر کی طرف نہیں جانے دیتا اور ہر برائی میں وہ آگے آگے ہوتے ہیں۔( ماخذہ باختصار از معارف القرآن: 399/5)
البتہ واضح رہے کہ بھول چوک اور شیطانی وسوسہ کبھی کبھی اللہ تعالٰی کے نیک بندوں کو بھی پیش آجاتا ہے، مگر یہ بھول ان کے لیے مضر نہیں ہوتی ہے، بلکہ مزید ترقی درجات کا سبب بن جاتی ہے۔
سوال میں ذکر کیے گئے واقعہ میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رفیق سفر حضرت یوشع بن نون کو جو بھول چوک ہوئی ہے، اس مزید سفر کی مشقت کی وجہ سے ترقی درجات ہوئی۔
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: جن لوگوں نے تقوی اختیار کیا ہے، انہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال آکر چھوتا بھی ہے تو وہ (اللہ کو) یاد کرلیتے ہیں چنانچہ اچانک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔(سورۃ الاعراف، آیت نمبر:201)
تفسیر: گناہ کی خواہش نفس اور شیطان کے اثرات سے بڑے بڑے پرہیزگاروں کو بھی ہوتی ہے، لیکن وہ اس کا علاج اس طرح کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں حاضری کا دھیان کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں، یعنی ان کو گناہ کی حقیقت نظر آجاتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ گناہ سے بچ جاتے ہیں اور اگر کبھی غلطی ہو بھی جائے تو توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے۔( آسان ترجمۂ قرآن )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

العلل الکبیر للترمذی: (بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الطُّهُورِ، رقم الحدیث: 428)

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ , حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ , عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ لِلشَّيْطَانِ لَمَّةً بِابْنِ آدَمَ , وَلِلْمَلَكِ لَمَّةً فَأَمَّا لَمَّةُ الشَّيْطَانِ فَإِيعَادٌ بِالشَّرِّ وَتَكْذِيبٌ بِالْحَقِّ , وَأَمَّا لَمَّةُ الْمَلَكِ فَإِيعَادٌ بِالْخَيْرِ وَتَصْدِيقٌ بِالْحَقِّ , فَمَنْ وَجَدَ ذَلِكَ فَلْيَعْلَمْ أَنَّهُ مِنَ اللَّهِ فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ , وَمَنْ وَجَدَ الْأُخْرَى فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ , ثُمَّ قَرَأَ { الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ } الْآيَةَ سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ : رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَأَوْقَفَهُ . وَأَرَى أَنَّهُ قَدْ رَفَعَهُ غَيْرُ أَبِي الْأَحْوَصِ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ , وَهُوَ حَدِيثُ أَبِي الْأَحْوَصِ

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1611 Aug 18, 2020
shaitaan ko insaanon par kitna ikhtiyar hai?, How much power / excess does Satan have over humans?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation of Quranic Ayaat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.