سوال:
مفتی صاحب ! ایک خدیجہ نامی عورت حلفاََ کہتی ہے کہ اس کے شوہر عظیم نے اپنی بھابھی کو فون پر یہ کہا کہ "خدیجہ میری طرف سے آزاد ہے، میں آزاد کرتا ہوں" دو بار یہ الفاظ استعمال کیے۔
اس سے پہلے بھی شوہر نے مارپیٹ کی تھی اور یہ الفاظ کہے تھے کہ "میرے گھر سے نکل جا، میں تمہیں نہیں رکھتا"۔
اس جملہ "میں تمہیں نہیں رکھتا" کے گواہ پڑوس کی عورتیں، لڑکے، جرگے والے، شوہر کے بھائی، رشتہ دار اور لڑکی کے بھائی بھی ہیں، اور یہ جملہ کئی مرتبہ کہا ہے۔
ایک مرتبہ شوہر نے لڑکی کے بھائی کو کہا کہ "میں نہیں رکھتا" تو لڑکی کے بھائی نے کہا کہ تحریراً لکھ کر دو، تو شوہر کہنے لگا کہ جب میرا بھائی آئے گا، تو لکھ کر دیدونگا، "ابھی تم خدیجہ کو لے جاؤ"
اس ساری تفصیل کے بعد معلوم یہ کرنا ہے کہ کتنی طلاقیں واقع ہوگئی ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ ہمارے عرف میں اگر شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ "میں نے تمہیں آزاد کیا"، تو یہ الفاظ طلاق صریح کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں، لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت اگر واقعتاً سچ ہے، تو ایسی صورت میں محمد عظیم کے اپنی زوجہ خدیجہ کے متعلق یہ الفاظ " خدیجہ میری طرف سے آزاد ہے، میں آزاد کرتا ہوں" سے دو طلاقیں واقع ہو چکی ہیں، اس کے بعد جو الفاظ اس نے " میرے گھر سے نکل جا، میں تمہیں نہیں رکھتا" کہے ہیں، اگر ان الفاظ سے اس کی نیت مزید طلاق دینے کی تھی تو مزید ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی، اور اس کی بیوی اس پر تین طلاق بائن کی وجہ سے حرام ہو جائے گی، لیکن اگر انہوں نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں کہے، بلکہ اپنے پہلے الفاظ ( آزاد کرتا ہوں) کی تاکید کے لیے کہے ہیں تو ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، البتہ ایسی صورت میں پہلی دو طلاقیں رجعی بائن بن جائیں گی، جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے دوران یہ شخص رجوع نہیں کرسکتا، ہاں! عدت کے اندر یا عدت گزرنے کے بعد دونوں باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المحيط البرهاني: (497/3)
"إذا طلق امرأته تطليقة، ثم قال بعد ذلك: زن برمن حرام رست، يُسألُ الزوج: عنيت بقولك: زن فرض حرام است الحرمة بتلك التطليقة أو هذا الكلام، إن قال: عنيت بتلك التطليقة، فقد جعل الطلاق الرجعي بائناً، فلا تقع تطليقة أُخرى. وإن قال هذا الكلام مثلاً، فهو طلاق آخر ثاني".
الدر المختار مع رد المحتار: (336/3)
" الصريح يلحق الصريح والبائن
قوله: (الصريح يلحق الصريح) كما لو قال لها: أنت طالق ثم قال أنت طالق أو طلقها على مال وقع الثاني.فلا فرق في الصريح الثاني بين كون الواقع به رجعيا أو بائنا۔ “
الھندیة: (379/1)
"ولو قال الرجل لامرأتہ: ”تراچنگ باز داشتم“ أو ”بھشتم“ أو ”پلّہ کردم ترا“ أو ”پائے کشادہ کردم ترا“ فھذا کلہ تفسیر قولہ: ”طلقتک“ عرفاً حتی یکون رجعیاً ویقع بدون النیة کذا فی الخلاصة، وکان الشیخ الإمام ظھیر الدین المرغیناني رحمہ اللہ تعالی یفتي في قولہ: ”بھشتم“ بالوقوع بلا نیة ویکون الواقع رجعیاً ویفتي فیما سواھا باشتراط النیة ویکون الواقع بائناً کذا فی الذخیرة".
رد المحتار: (530/4- 531)
فإن ”سرحتک“ کنایة، لکنہ في عرف الفرس غلب استعمالہ فی الصریح، فإذا قال: ”رھا کردم“ أي: ”سرحتک“ یقع بہ الرجعي مع أن أصلہ کنایة أیضاً، وما ذاک إلا لأنہ غلب في عرف الناس استعمالہ فی الطلاق، وقد مر أن الصریح ما لم یستعمل إلا فی الطلاق من أي لغة کانت، ……، وأما إذا تعورف استعمالہ في مجرد الطلاق لا بقید کونہ بائناً یتعین وقوع الرجعي بہ کما في فارسیة: ”سرحتک“ ، ومثلہ ما قدمناہ في أول باب الصریح من وقوع الرجعي بقولہ: ”سن بوش“ أو ”بوش أول“ في لغة الترک مع أن معناہ العربي: أنت خلیة وھو کنایة، لکنہ غلب في لغة الترک استعمالہ فی الطلاق".
الهداية: (429/1)
"وإذا وصف الطلاق بضرب من الزيادة أو الشدة كان نائبا مثل أن يقول أنت طالق بائن أو البتة"
الجوهرة النيرة: (51/5)
”(وإذا وصف الطلاق وبضرب من الزيادة والشدة كان بائنا ) ؛ لأن الطلاق يقع بمجرد اللفظ فإذا وصفه بزيادة أفاد معنى ليس في لفظه قوله ( مثل أن يقول أنت طالق بائن أو طالق أشد الطلاق أو أفحش الطلاق أو طلاق الشيطان أو طلاق البدعة أو كالحبل أو ملء البيت ) ، وكذا أخبث الطلاق أو أسوأ الطلاق أو أنت طالق ألبتة “
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی