سوال:
مفتی صاحب! ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا, وہ یہ کہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں رشتہ ڈھونڈھتے وقت ذات، پات رنگ اور نسل کو ترجیح دی جاتی ہے، سید، انصاری، شیخ، خان اور ہر نسل کا اپنا اپنا موقف بنا ہوا ہے، کیا یہ طریقہ درست ہے اور کیا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی یہ بات ہے کہ آپ صلی الله عليه وسلم نے بھی اپنی آنے والی نسلوں کو اپنے خاندان سے باہر نکاح نا کرنے کی تلقین کی ہو؟
وضاحت کے ساتھ رہنمائی فرما دیں۔
جواب: واضح رہے کہ شریعت نے نکاح کے موقع پر آپس میں نسب، دین داری، شرافت، پیشے اور مال داری میں "کفو" یعنی برابری کا اعتبار کیا ہے۔
میاں بیوی کے درمیان معاشرت، رہن سہن اور دینداری وغیرہ میں برابری کی صورت میں اس بات کی زیادہ امید ہوتی ہے کہ دونوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار گزرے اور رشتہ نکاح مستحکم ہو، کیونکہ بے جوڑ نکاح عموما ًناکام رہتے ہیں اور اس ناکامی کے برے اثرات نہ صرف میاں بیوی پر پڑتے ہیں، بلکہ ان دونوں خاندانوں تک اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
جناب رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اپنی عورتوں کا نکاح کفو(ذات، برادری میں برابر) کے ساتھ کرو، اس لیے شریعت نے فطری جذبے کا لحاظ رکھتے ہوئے کچھ بنیادی اور اہم باتوں میں جانبین سے برابری کو ملحوظ رکھا ہے، لہذا اگر لڑکا اور لڑکی نسب، مال ،دِین داری، شرافت اور پیشے میں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوں تو یہ دونوں ایک دوسرے کے ’’کفو" کہلائیں گے، ان کا آپس کی رضامندی کے ساتھ نکاح درست ہوگا اور اگر لڑکا اور لڑکی کے درمیان مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق برابری نہ ہو تو وہ آپس میں ’’غیر کفو‘‘ ہونگے اور ان کا آپس میں ولی(والد یا دادا وغیرہ) کی رضامندی کے بغیر نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا۔
یہ بھی واضح رہے کہ عجمی ( غیر عربی النسل ) خاندانوں اور برادریوں میں "کفاءت" کے مسئلہ کا مدار لوگوں کے عرف پر ہے، پس جن برادریوں کو آپس میں عام طور پر ایک دوسرے کا کفو سمجھا جاتا ہے، اُنہیں کفو سمجھا جائے گا، اور جن برادریوں میں آپس میں رشتہ داریاں معیوب سمجھی جاتی ہیں، اُنہیں غیر کفو قرار دیا جائے گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نکاح کرتے وقت نسب ، خاندان اور برادری کو مدنظر رکھنا اور جن خاندانوں میں رشتہ کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے، اس میں رشتہ کرنے سے اجتناب کرنا، شرعا منع نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المعجم الأوسط للطبراني: (6/1، ط: دار الحرمين)
عن جابر قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تنكحوا النساء إلا الأكفاء، ولا يزوجهن إلا الأولياء، ولا مهر دون عشرة دراهم»
الھندیة: (290/1، ط: دار الفكر)
الْكَفَاءَةُ تُعْتَبَرُ فِي أَشْيَاءَ (مِنْهَا النَّسَبُ)...(وَمِنْهَا إسْلَامُ الْآبَاءِ)... (وَمِنْهَا الْحُرِّيَّةُ)... (وَمِنْهَا الْكَفَاءَةُ فِي الْمَالِ)...(وَمِنْهَا الدَّيَّانَةُ)...(وَمِنْهَا الْحِرْفَةُ)".
و فيها أيضا: (293/1، ط: دار الفكر)
"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً، وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ....وروی الحسن عن أبی حنیفة ۔ رحمه الله تعالیٰ ۔ أن النکاح لا ینعقد وبه أخذ کثیر من مشایخنا رحمھم اللہ تعالی، کذا فی المحیط والمختار فی زماننا للفتویٰ روایة الحسن وقال الشیخ الإمام شمس الأئمة السرخسی روایة الحسن أقرب إلی الاحتیاط، کذا فی فتاوی قاضی خان فی فصل شرائط النکاح وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة: أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق. ولايكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما"
بدائع الصنائع: (317/2، ط: دار الکتب العلمية)
كفاءة الزوج في إنكاح المرأة الحرة البالغة العاقلة نفسها من غير رضا الأولياء بمهر مثلها....فقد قال عامة العلماء: أنها شرط.....لنا ما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «لا يزوج النساء إلا الأولياء، ولا يزوجن إلا من الأكفاء، ولا مهر أقل من عشرة دراهم» ، ولأن مصالح النكاح تختل عند عدم الكفاءة؛ لأنها لا تحصل إلا بالاستفراش، والمرأة تستنكف عن استفراش غير الكفء، وتعير بذلك، فتختل المصالح؛ ولأن الزوجين يجري بينهما مباسطات في النكاح لا يبقى النكاح بدون تحملها عادة، والتحمل من غير الكفء أمر صعب يثقل على الطباع السليمة، فلا يدوم النكاح مع عدم الكفاءة، فلزم اعتبارها.
امداد الفتاوى: (372/2، ط: مكتبة دار العلوم)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی