عنوان: مہر فاطمی کی مقدار٬ مستقبل میں طلاق وغیرہ کے خوف سے نکاح نامہ میں مہر زیادہ لکھوانے کا حکم(5070-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! مہر فاطمی کی مقدار کتنی ہے؟ یہ بھی وضاحت فرما دیں کہ آج کل جو نکاح کے وقت زیادہ مہر صرف اس لئے لکھا جاتا ہے کہ اگر مستقبل میں کہیں طلاق یا ناراضگی کا معاملہ پیش آجائے تو لیا جائے گا، اسکی شرعی حوالے سے کیا حیثیت ہے؟

جواب: 1..."مہرِ فاطمی" کی مقدار احادیث مبارکہ میں ساڑھے بارہ اوقیہ منقول ہے٬ اور ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، تو اس حساب سے "مہر فاطمی" پانچ سو درہم بنتے ہیں۔
موجودہ دور کے حساب سے اس کی مقدار ایک سو اکتیس تولہ تین ماشہ چاندی بنتی ہے٬ اور آج کل کے مروجہ گرام کے حساب سے ایک کلو پانچ سو تیس (530) گرام اور نو سو (900) ملی گرام چاندی بنتی ہے۔
2...واضح رہے کہ نکاح نامہ میں مہر کی جتنی مقدار لکھی جائے٬ اس کے مطابق ادائیگی شرعا لازم ہوتی ہے٬ اس لئے جتنا مہر دینا مقصود ہو، وہی لکھنا چاہئے٬ نیز مہر میں غلو سے کام لینا اور شوہر کی استطاعت سے کہیں زیادہ حق مہر لکھوانا شرعا پسندیدہ نہیں ہے٬ میاں بیوی کے رشتے کی اصل بنیاد باہمی خلوص، وفاداری٬ اعتماد اور للہیت ہے٬ اگر یہ نہ ہو تو کروڑوں کے مال اسباب بھی اس کا متبادل نہیں بن سکتے٬ اور اگر یہ چیز موجود ہو تو فاقہ کشی بھی اس نازک رشتے کو متزلزل نہیں کرسکتی٬ زیادہ جہیز دینا یا زیادہ حق مہر لکھوانا میاں بیوی کے باہمی رشتے کو مضبوط نہیں بناتا٬ اس لئے بلاوجہ ایسی لایعنی شرائط رکھنا اور استطاعت سے کہیں زیادہ مہر لکھوانا مناسب نہیں ہے٬ کیونکہ شریعت کا مزاج یہ ہے کہ بہت زیادہ مہر نہ رکھا جائے٬ اس لئے اس سے اجتناب کرنا چاہئے٬ تاہم اگر نکاح نامے پر جتنا مہر لکھوایا جائے، اگر شوہر اس پر دستخط کر کے رضامندی کا اظہار کر دے٬ تو اس پر پورے مہر کی ادائیگی شرعا لازم ہوجائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح مسلم: (باب الصداق، رقم الحدیث: 1426، 1042/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
"عنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ کَمْ کَانَ صَدَاقُ رَسُولِ اﷲِ؟ قَالَتْ کَانَ صَدَاقُهُ لِأَزْوَاجِهِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَةً وَنَشًّا قَالَتْ أَتَدْرِي مَا النَّشُّ؟ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَتْ نِصْفُ أُوقِيَةٍ فَتِلْکَ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَهَذَا صَدَاقُ رَسُولِ اﷲِ لِأَزْوَاجِهِ.

مصنف ابن ابی شیبة: (رقم الحدیث: 16373، 493/3، ط: مکتبة الرشد)
"عنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاهِيْمَ قَالَ صَدَاقُ بَنَاتٍ النَّبِيِّ وَصَدَاقُ نِسَائِهِ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ.

الطبقات الکبری: (18/8، ط: دار الكتب العلمية)
"اثْنَيْ عَشَرَ أَوْقِيَةَ وَنِصْفًا"

مشکوة المصابيح: (رقم الحديث: 3204)
"عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: ألا لا تغالوا صدقة النساء فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا وتقوى عند الله لكان أولاكم بها نبي الله صلى الله عليه وسلم ما علمت رسول الله صلى الله عليه وسلم نكح شيئا من نسائه ولا أنكح شيئا من بناته على أكثر من اثنتي عشرة أوقية. رواه أحمد والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي"

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 919 Aug 24, 2020
meher e fatimi ki miqdaar, mustaqbil me talaq / talaaq wagheera ke / key khof se / sey nikaah nama me / mein meher ziyada likhwane / likhwaney ka hukum / hukm, The order to write more dowry / meher in the marriage certificate due to the fear of future divorce etc.

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.