سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! یہ وضاحت فرما دیں کہ آج کل جو نکاح کے وقت زیادہ مہر صرف اس لئے لکھا جاتا ہے کہ اگر مستقبل میں کہیں طلاق یا ناراضگی کا معاملہ پیش آجائے تو لیا جائے گا، اسکی شرعی حوالے سے کیا حیثیت ہے؟
جواب: واضح رہے کہ نکاح نامہ میں مہر کی جتنی مقدار لکھی جائے٬ اس کے مطابق ادائیگی شرعا لازم ہوتی ہے٬ اس لئے جتنا مہر دینا مقصود ہو، وہی لکھنا چاہئے٬ نیز مہر میں غلو سے کام لینا اور شوہر کی استطاعت سے کہیں زیادہ حق مہر لکھوانا شرعا پسندیدہ نہیں ہے٬ میاں بیوی کے رشتے کی اصل بنیاد باہمی خلوص، وفاداری٬ اعتماد اور للہیت ہے٬ اگر یہ نہ ہو تو کروڑوں کے مال اسباب بھی اس کا متبادل نہیں بن سکتے٬ اور اگر یہ چیز موجود ہو تو فاقہ کشی بھی اس نازک رشتے کو متزلزل نہیں کرسکتی٬ زیادہ جہیز دینا یا زیادہ حق مہر لکھوانا میاں بیوی کے باہمی رشتے کو مضبوط نہیں بناتا٬ اس لئے بلاوجہ ایسی لایعنی شرائط رکھنا اور استطاعت سے کہیں زیادہ مہر لکھوانا مناسب نہیں ہے٬ کیونکہ شریعت کا مزاج یہ ہے کہ بہت زیادہ مہر نہ رکھا جائے٬ اس لئے اس سے اجتناب کرنا چاہئے٬ تاہم اگر نکاح نامے پر جتنا مہر لکھوایا جائے، اگر شوہر اس پر دستخط کر کے رضامندی کا اظہار کر دے تو اس پر پورے مہر کی ادائیگی شرعا لازم ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (باب الصداق، رقم الحدیث: 1426، 1042/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
"عنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ کَمْ کَانَ صَدَاقُ رَسُولِ اﷲِ؟ قَالَتْ کَانَ صَدَاقُهُ لِأَزْوَاجِهِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَةً وَنَشًّا قَالَتْ أَتَدْرِي مَا النَّشُّ؟ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَتْ نِصْفُ أُوقِيَةٍ فَتِلْکَ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَهَذَا صَدَاقُ رَسُولِ اﷲِ لِأَزْوَاجِهِ.
مصنف ابن ابی شیبة: (رقم الحدیث: 16373، 493/3، ط: مکتبة الرشد)
"عنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاهِيْمَ قَالَ صَدَاقُ بَنَاتٍ النَّبِيِّ وَصَدَاقُ نِسَائِهِ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ.
الطبقات الکبری: (18/8، ط: دار الكتب العلمية)
"اثْنَيْ عَشَرَ أَوْقِيَةَ وَنِصْفًا"
مشکوة المصابيح: (رقم الحديث: 3204)
"عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: ألا لا تغالوا صدقة النساء فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا وتقوى عند الله لكان أولاكم بها نبي الله صلى الله عليه وسلم ما علمت رسول الله صلى الله عليه وسلم نكح شيئا من نسائه ولا أنكح شيئا من بناته على أكثر من اثنتي عشرة أوقية. رواه أحمد والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی