سوال:
مفتی صاحب ! میری ایک دوست ہے، جو جاب کرتی ہے، اور اسکی انکم سے گھر کا خرچ چلتا ہے، والد ریٹائرڈ ہیں اور بھائی شادی شدہ ہیں، لیکن الگ رہتے ہیں، گھر میں خرچہ نہیں دیتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس کا جو بھی رشتہ آتا ہے، والد صاحب کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کے انکار کر دیتے ہیں اور لڑکی 26 سال کی ہو چکی ہے۔
کیا وہ ایسی صورت میں ولی کی اجازت کے بغیر خود سے نکاح کر سکتی ہے؟
جواب: اگر عاقلہ بالغہ لڑکی والدین کو لاعلم رکھ کر شرعی گواہوں کی موجودگی میں کفو میں نکاح کرلے تو نکاح منعقد ہو جائے گا، لیکن اگر لڑکا خاندان، نسب، مال اور دین کے اعتبار سے لڑکی کا کفو (برابر) نہ ہو تو نکاح اگرچہ منعقد ہوجائے گا، لیکن لڑکی کے اولیاء کو اس کی اولاد ہونے سے پہلے پہلے عدالت سے رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوگا، اسی وجہ سے اسلام نے خصوصا لڑکی کی حیا اور پاکدامنی کا خیال رکھتے ہوئے نکاح کا اہتمام ولی (والدین ) کے سپرد کیا ہے۔
لہذا لڑکی کو والدین کی اجازت کے بغیر ہرگز کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہیے، جسے معاشرتی اور اخلاقی طور پر برا سمجھا جاتا ہو، کیونکہ نکاح کا مقصد دو خاندانوں کے درمیان محبت و الفت کا تعلق قائم کرنا ہے، لیکن اس طرح کا اقدام باہمی منافرت اور ناچاقیوں کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ لڑکی جب بالغ ہوجائے، اور قرائن سے اندازہ ہو کہ بیٹی شادی کرنا چاہتی ہے، تو جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ کر اس کا نکاح کردینا چاہیے، ورنہ گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا۔
حدیث شریف میں ہے:
'' وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه»''۔
(مشكاة المصابيح (2/ 939)
ترجمہ: ابو سعید اور ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو، اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔
'' وعن عمر بن الخطاب وأنس بن مالك رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " في التوراة مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنةً ولم يزوّجها فأصابت إثماً فإثم ذلك عليه. رواهما البيهقي في شعب الإيمان''۔
(مشكاة المصابيح (2/ 939)
ترجمہ: عمر بن خطاب اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تورات میں درج ہے کہ جس کی بیٹی بارہ سال کی ہوجائے اور وہ اس کا نکاح نہ کرے، پھر لڑکی سے کوئی گناہ ہوجائے تو باپ بھی گناہ گار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مرقاۃ المفاتیح: (270/6، ط: دار الکتب العلمیة)
وقال ابن ھمام حاصل ما فی الولی من علماءنا سبع روایات رویتان عن أبي حنیفۃؒ احدھما تجوز مباشرۃ البالغۃ العاقلۃ عقد نکاحہا ونکاح غیرہا مطلقاً إلا أنہ خلاف المستحب وہو ظاہر المذہب وروایۃ الحسن عنہ ان عقدت مع کفوءجاز ومع غیرہ لا یصح واختیرت للفتوی لما ذکر من ان کم من واقع لایرفع۔
الدر المختار مع رد المحتار: (56/3، ط: دار الفکر)
نفذ نکاح حرۃ مکلفۃ بلا ولي،
والأصل أن کل من تصرف في مالہ تصرف من نفسہ، ولہ أي للولي إذا کان عصبۃ الاعتراض في غیر الکفو۔
الھندیة: (292/1، ط: دار الفکر)
المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخرا وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخرا أيضا حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك ولكن للأولياء حق الاعتراض وروى الحسن عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أن النكاح لا ينعقد وبه أخذ كثير من مشايخنا رحمهم الله تعالى، كذا في المحيط والمختار في زماننا للفتوى رواية الحسن وقال الشيخ الإمام شمس الأئمة السرخسي رواية الحسن أقرب إلى الاحتياط، كذا في فتاوى قاضي خان في فصل شرائط النكاح وفي البزازية ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكرا كانت أو ثيبا على قول الإمام الأعظم وهذا إذا كان لها ولي فإن لم يكن صح النكاح اتفاقا
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی